(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) جب ایک فلسطینی شخص سے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے اور امن معاہدے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے خشمگیں نگاہوں سے کہا، ”ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے۔”
مصر اور اردن کے بعد، متحدہ عرب امارات تیسرا ملک ہے جس نے ریاست اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے اور اسے قانونی حیثیت دی ہے ۔ فلسطینیوں کا مذاکرات میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ نتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی دہائیوں بعد اس معاہدے کو سفارتی پیشرفت قرار دیا ہے۔ اس معاہدے کی تحسین کرنے اور اسرائیلی قبضے کو جواز دینے میں مغربی ممالک امریکہ کے پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے کیا گیا بہانہ یہ ہے کہ معاہدے کے نتیجے میںاسرائیل عارضی طور پر، مغربی کنارے کے الحاق کو معطل کردے گا۔ ایک امیر مسلمان عرب ملک کی طرف سے معاہدہ اور تعلقات کو معمول پر لانا غزہ اور فلسطین کیلئے ایک بہت بڑی سفارتی ضرب ہے۔ ایک بار پھر ایسا لگتا ہے کہ اسٹریٹجک اتحاد کی اہمیت، تجارت اور طاقت کے وقتی فوائد نے انصاف، انسانی حقوق، اخوت اور آزادی کے نظریات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ آج کی دنیا پہلے کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی غیر محفوظ ہے۔
جب ایک فلسطینی شخص سے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے اور امن معاہدے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے خشمگیں نگاہوں سے کہا، ”ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے۔” مصر اور اردن کے بعد، متحدہ عرب امارات تیسرا ملک ہے جس نے ریاست اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے اور اسے قانونی حیثیت دی ہے ۔ فلسطینیوں کا مذاکرات میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ نتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی دہائیوں بعد اس معاہدے کو سفارتی پیشرفت قرار دیا ہے۔ اس معاہدے کی تحسین کرنے اور اسرائیلی قبضے کو جواز دینے میں مغربی ممالک امریکہ کے پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے کیا گیا بہانہ یہ ہے کہ معاہدے کے نتیجے میںاسرائیل عارضی طور پر، مغربی کنارے کے الحاق کو معطل کردے گا۔ ایک امیر مسلمان عرب ملک کی طرف سے معاہدہ اور تعلقات کو معمول پر لانا غزہ اور فلسطین کیلئے ایک بہت بڑی سفارتی ضرب ہے۔ ایک بار پھر ایسا لگتا ہے کہ اسٹریٹجک اتحاد کی اہمیت، تجارت اور طاقت کے وقتی فوائد نے انصاف، انسانی حقوق، اخوت اور آزادی کے نظریات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ آج کی دنیا پہلے کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی غیر محفوظ ہے۔
متحدہ عرب امارات کیلئے اس معاہدے کا دوسرا اہم پہلو بھی مدِ نظر رہے،1971 میں شیخ زید بن سلطان النہیان نے اسرائیل کو دشمن قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ، ”سیب درخت سے بہت دور گر گیا ہے”، شہزادہ محمد بن زاید نے ملک کی سفارتی، دفاعی اور تجارتی تعلقات کی راہیں کھول دی ہیں ۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہونی چاہئے کہ امن معاہدے کے اعلان کے فورا بعد ہی امریکہ نے متحدہ عرب امارات کو جدید F-35 جیٹ طیاروں کی فروخت کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک وقتی فائدہ ہے۔ متحدہ عرب امارات ایک ایسا امیر ملک ہے جس میں تیل اور بڑے پیمانے پر تجارت کے مواقع موجود ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تجارت صرف 3 ملین ڈالر ہے جو اب بڑھ کر 350 ملین ڈالر ہوجائیگی۔ اسرائیل کو امریکہ نے دفاع اور جنگ میں جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کی ہے جو اب متحدہ عرب امارات کے ساتھ شیئر کی جائیگی۔ مزید یہ کہ اسرائیل یہودی کاروباری بلاک کا مرکز ہے جو متحدہ عرب امارات کیلئے نئے مواقع پیدا کرے گا۔ متحدہ عرب امارات ہتھیاروں اور ٹکنالوجی کی ایک نئی رینج کی بھاری ادائیگی کرسکتا ہے ، اسرائیل ضرورت کا سامان مہیا کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہوگا۔ یہ امن معاہدے کے جیو اسٹریٹجک مضمرات سے ہٹ کر ایک پہلو ہے۔
سعودیہ عرب اور متحدہ عرب امارات خطے میں ایران اور ترکی کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے میں امریکہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ پابندیوں اور معاشی بدحالی کے باوجود ایران مشرق وسطیٰ میںبڑی اہمیت کا حامل ہے۔ عراق، شام اور لبنان میں، ایرانی اثر و رسوخ بڑھتا جارہا ہے۔ حزب اللہ اور حماس کی حمایت میں اسرائیل کیلئے ایران سب سے بڑا خطرہ ہے۔ متحدہ عرب امارات نے ایران کے خلاف دفاعی لائن کی امید میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے جوہڑ میں غوطہ لگایا ہے۔ اگرچہ متحدہ عرب امارات کیلئے ایران کبھی کوئی خطرہ نہیں رہا لیکن پھر بھی امریکہ اور اسرائیل کی آشیر باد سے ایک بڑی طاقت بننے کا خواب تعبیر کامتلاشی ہو گیا ہے۔ علاقائی طاقت کو یقینی بنانے کیلئے فلسطین کی حیثیت کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اس امن معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل عارضی طور پر اسرائیل میں فلسطینی سرزمین کا الحاق معطل کردیگا۔ لفظ ”عارضی طور پر” زور دیا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اوول آفس پریس کانفرنس میں اس وقت اسرائیل میں مغربی کنارے کے الحاق کو معطل قرار دیا ۔ متحدہ عرب امارات کے امن معاہدے کیلئے ترکی کے اردگان کے پاس صرف ایک لفظ تھا ”رسوا”۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات یمن اور لیبیا میں ساتھی مسلمانوں کو ہلاک کرنے کیلئے فوجی مہموں کی حمایت کر رہا ہے۔
یہ معاہدہ فلسطین کے عوام کیلئے صدمے کی طرح ہے۔ یہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوںزخم خوردہ عوام کیلئے یوم سیاہ ہے۔ اسرائیل کیلئے یہ ایک سفارتی فتح ہوگی۔ مزید ممالک کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اسکے قبضے کو قانونی حیثیت دینے کیلئے یہ نقطہئِ آغاز ہے۔ مصر نے فلسطین کیلئے اسرائیل کے ساتھ چار اور اردن نے تین جنگیں لڑی ہیں۔ امریکہ کی حمایت کے باعث وہ کامیاب نہیں ہوسکے اور شدید دباؤ کی وجہ سے مصر نے سن 1979 میں اوراردن نے 1994 میں سفارتی تعلقات بحال کیے۔ لیکن متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ کوئی سرحدی تنازعہ نہیں ہے۔ یہ کبھی بھی فلسطین کیلئے جنگ نہیں لڑا ۔ یہ معاہدہ فلسطین میں مقبوضہ اراضی کی آزادی اور فلسطینیوں کی جدوجہد کو مزید کمزور کریگا۔ اس اعلان کے بعدفلسطینی احتجاج کے طور پر سڑکوں پر نکل آئے اور اسرائیل کی جانب سے پھربربریت شروع ہوگئی۔ اگلے ہی دن اسرائیلی جیٹ طیاروں نے غزہ کی پٹی پر بمباری کی جس سے متعدد شہری زخمی ہوئے۔
ان حالات میں عمران خان نظریاتی قائد کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اپنے پیغام میں، انہوں نے واضح طور پر فلسطین کیلئے وہی مؤقف اپنایا ہے جو وہ کشمیر کیلئے رکھتے ہیں۔ فلسطینیوں کیلئے حق خودارادیت پاکستانیوں کی دیرینہ خواہش ہے۔ متحدہ عرب امارات- اسرائیل کے معاہدے کی مذمت کے حوالے سے ملک کے بہت سے شہروں میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ ایک جمہوری ملک کے طور پر پاکستان فلسطین کیلئے آزادی اور اتحاد کے نظریہ پر قائم ہے۔ حکومت پاکستان کے جوابی پیغام کے بعد، اسلام آباد میں فلسطین کے سفارتخانے نے باضابطہ طور پر پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کیاہے۔
امتیاز رفیع بٹ
بشکریہ نوائے وقت