(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) یہ جنوری 2009ء کی ایک صبح تھی۔ میں نے غزہ کے القدس ہوٹل کے استقبالئے پر موجود عمر رسیدہ شخص سے کہا کہ مجھے ڈالروں کے عوض مقامی کرنسی چاہئے تاکہ ٹیکسی کا بندوبست کر سکوں۔
یہ عمر رسیدہ شخص میری طرح تمام رات کا جاگا ہوا تھا۔ ساری رات اسرائیلی طیارے القدس ہوٹل کے آس پاس بمباری کرتے رہے۔ جب ایک بم ہوٹل کے عقبی حصے میں گرا تو میں بھی اپنا کمرہ چھوڑ کر باہر آ گیا تب یہ شخص مجھے لے کر ایک خندق میں گھس گیا۔ اس خندق میں پہلے سے کئی غیر ملکی صحافی پناہ لئے ہوئے تھے۔ ہم سب غزہ پر اسرائیلی حملوں میں شدت آنے کے بعد مصر کے راستے سے غزہ تک پہنچے تھے۔ تمام رات خندق میں گزار کر ہم اپنے اپنے کام پر نکلنے کی تیاری میں تھے۔ مجھے خان یونس جانا تھا جہاں اسرائیل نے ایک مسجد پر بمباری کی تھی اور خان یونس کے لئے ٹیکسی درکار تھی۔ استقبالئے پر موجود شخص نے سرگوشی کے انداز میں ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا کہ ہوٹل سے ڈالر تڑوانے کی بجائے بینک چلے جائو اچھا ریٹ ملے گا۔ میں نے پوچھا آپ نے اردو کہاں سے سیکھی؟ کہنے لگا بہت سال پہلے وہ دبئی کے ایک ہوٹل میں ملازمت کرتا تھا وہاں پاکستانیوں سے میل جول رہا اس لئے اردو سیکھ لی لیکن پھر اُسے دبئی سے نکال دیا گیا۔ بہرحال اُس نے مجھے بینک فلسطین کا راستہ سمجھایا۔ میں نے بینک فلسطین کے کائونٹر پر سو ڈالر کا نوٹ رکھا۔ اندر سے میرا پاسپورٹ مانگا گیا۔ میں نے پاسپورٹ دکھا دیا جس کے بعد کائونٹر کے پیچھے سے میرے ہاتھ میں جو نوٹ تھمائے گئے وہ اسرائیلی شیکل تھے۔ میں حیران رہ گیا۔ بینک فلسطین کے پاس فلسطینی کرنسی نہیں تھی بلکہ اسرائیلی کرنسی تھی۔ مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ غلامی کیا ہوتی ہے اور آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔ شام کو میں اپنا کام مکمل کر کے ہوٹل واپس آیا تو استقبالئے پر موجودہ عمر رسیدہ شخص نے مسکراتے ہوئے کہا….’’حبیبی آئی ایم سوری‘‘ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ اُس نے کہا آپ ہمارے مہمان ہیں اور کل رات آپ ہوٹل کے کمرے کی بجائے خندق میں تھے۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں۔ یہ کہہ کر میں آگے بڑھ گیا تو اُس نے پیچھے سے پھر آواز لگائی….’’حبیبی آئی ایم سوری‘‘۔ میں نے پوچھا اب کیا ہوا؟ کہنے لگا ہو سکتا ہے آپ کو آج رات بھی خندق میں گزارنی پڑے اس لئے سات بجے سے پہلے پہلے کھانا کھا لیں۔ وہ رات بھی خندق میں گزری۔
جب سے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا ہے تو پاکستانیوں سے کہا جا رہا ہے کہ جذباتیت چھوڑو اور حقیقت پسندی کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھو۔ جذباتیت کے طعنے کے پیچھے یہ مشورہ چھپا ہوتا ہے کہ اگر مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے تو پاکستان بھی تسلیم کر لے کیونکہ پاکستان کو بہت فائدہ ہو گا۔ جب میں پوچھتا ہوں کہ ترکی نے تو 1949ء میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت کیوں نہ ملی؟ کوئی جواب نہ بن پڑے تو اپنے آپ کو بہت حقیقت پسند قرار دینے والے صاحبان دانش کہتے ہیں آپ اتنے جذباتی کیوں ہو رہے ہیں؟ فلسطینیوں نے کشمیر پر پاکستان کی کبھی حمائت نہیں کی تو آپ فلسطینیوں کے لئے اتنے جذباتی کیوں ہو رہے ہیں؟ کل رات پاکستان ٹیلی ویژن پر اویس توحید صاحب کے پروگرام میں ایک سابق سفارتکار بار بار اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی مخالفت کرنے والوں کو جذباتیت کے طعنے دے رہے تھے۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ بھی جذباتیت کا شکار تھے کیونکہ ان دونوں نے اسرائیل کی بہت مخالفت کی تھی تو یہ سفارتکار خاموش ہو گئے۔ اسرائیل کی مخالفت کا مطلب یہودیوں سے دشمنی نہیں ہے۔ دنیا میں نوم چوسکی سمیت کئی پڑھے لکھے یہودی اسرائیلی ریاست کے ناقد ہیں۔ میں نے 1994ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کا انٹرویو کیا تھا لیکن 2006ء میں لبنان اسرائیل جنگ اور 2009ء میں اسرائیل کی غزہ میں بمباری کو قریب سے دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کیا گیا تو مشرق وسطیٰ میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا اور مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہ ہوا تو عام مسلمانوں اور مغرب کے تعلقات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ متحدہ عرب امارات نے ایران کی دشمنی میں اسرائیل سے اتحاد قائم کیا ہے۔ پاکستان کے ایران سے بہت مثالی تعلقات نہیں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کچھ عرب بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے نظریات کو چھوڑ کر ڈونلڈ ٹرمپ کے یس مین بن جائیں۔
میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا۔ صرف اتنا عرض کروں گا کہ جب 1936ء میں فلسطین میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو برطانوی حکومت نے ایک رائل کمیشن بنایا اور فلسطین کو تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی۔ رائل کمیشن کی رپورٹ پر علامہ اقبالؒ نے 3؍ جولائی 1937ء کو ایک بیان جاری کیا جس میں فلسطین کی تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے عربوں کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے بادشاہوں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ بادشاہ فلسطین پر کوئی درست فیصلہ کرنے کے قابل نہیں۔ (بحوالہ مکاتیب اقبال، مرتب شیخ عطاء اللہ) 7؍ اکتوبر کو علامہ اقبالؒ نے قائداعظمؒ کے نام خط میں اصرار کیا کہ مسلم لیگ کے اجلاس میں فلسطین کے لئے قرارداد منظور کی جائے۔ اس خط میں انہوں نے لکھا کہ ایشیا کے دروازے پر ایک مغربی چھائونی کا مسلط کیا جانا اسلام اور ہندوستان دونوں کے لئے پُر خطر ہے اور میں اس سلسلے میں جیل جانے کے لئے تیار ہوں۔ کچھ دن بعد آل انڈیا مسلم لیگ نے لکھنو میں اپنے 25ویں سالانہ اجلاس میں فلسطینیوں کے حق میں قرارداد منظور کی۔ ایسی ہی ایک قرارداد 23؍ مارچ 1940ء کو لاہور میں منظور کی گئی۔ 29؍ نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کی قرارداد منظور کی تو قائداعظمؒ نے 8؍ دسمبر 1947ء کو امریکی صدر ٹرومین کے نام خط بھیجا اور اقوام متحدہ کی قرارداد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ فلسطین کے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں۔ جب اسرائیل نے پاکستان سے سفارتی تعلقات کی درخواست کی تو قائداعظمؒ نے یہ درخواست نظر انداز کر دی۔ 1951ء میں مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی پاکستان آئے اور لائن آف کنٹرول پر (اوڑی سیکٹر) چودھری غلام عباس کے ساتھ کھڑے ہو کر کشمیریوں کی حمائت کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ کی جس قرارداد کو قائداعظم نے مسترد کر دیا آج اسرائیل اُس قرارداد پر بھی عمل کرنے کیلئے تیار نہیں اور فلسطینیوں کو ایک ایسی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں جس کے پاس اپنی کرنسی ہو۔ اگر پاکستان نے مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کر دیا تو کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پروا کون کریگا؟ کم از کم میں فلسطینیوں اور کشمیریوں کو یہ کہنے کے لئے تیار نہیں ہوں ’’حبیبی آئی ایم سوری‘‘۔