(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ ) امریکی یہودی سائنسدان پیٹر بینارٹ نے 6،700 الفاظ پر مشتمل مضمون میں صہیونی ریاست کے فلسطینیوں کے خلاف برتاؤکو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے "اسرائیلی ریاست کے وجود اور اس کی آئینی حیثیت پر” پر سوال اٹھائے۔
امریکی یہودی سائنسدان نے اپنے یکے بعد دیگرے دو مضامین میں صیہونی ریاست کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے اسرائیلی سے ہمدری تھی اور میں دو ریاستی حل کا حامی تھا تاہم اسرائیل کی جانب سے اوسلو معاہدے کی خلاف ورزیوں کے بعد مجھے اسرائیل سے کسی قسم کی انسانیت کی امید نہیں ہے۔
اپنے مضمون میں انھوں نے صیہونیت کی تعریف لکھتے ہوئے کہا ہے کہ "صہیونیت کی ایک ہی قسم جس کو انہوں نے پرکشش پایا وہ ہے جو فلسطینیوں کو وقار اور امن کے ساتھ رہنےکا حق دے۔ "
بینارٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے 1993 میں اوسلو معاہدے کے مرکزی خیال پر جوش و جذبےکا اظہار کیا تھا اوراسے پسند کیا تھا وہ اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کے لیے مکمل آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے پرزور حامی ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ کوئی بھی "یہودی ریاست کا ترقی پسند اور حمایتی رہ سکتا ہے” لیکن اسرائیل کی جانب سے” اوسلو معاہدے کی خلاف ورزیوں نے اس امید ختم کردیا۔
جہاں تک دو علیحدہ ریاستوں کے امکان کا تعلق ہے تو بینارٹ کے بہ قول اب یہ تصور ختم ہوچکا ہے صرف "کوریج” باقی ہے تاکہ فلسطینیوں کی محرومیوں کو مزید بڑھایا جا سکے۔
اپنے مضمون میں انھوں نے واضح طور پر کہا کہ میں ترقی پسند یہودیوں کو بھی اس حقیقت کا سامنا کرنے کی دعوت دیتا ہوں جو یہ تسلیم کریں کہ اگر فلسطین میں اسرائیلیوں کی ریاست ہوسکتی ہے تو فلسطینیوںکی کیوں نہیںہوسکتی۔