(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے رابطہ کار کا کہنا ہے کہ چار لاکھ سے زیادہ یونیورسٹی کے گریجوایٹس سمیت غزہ کی نصف آبادی بے روزگار ہے، 60 فیصد سے زائد خاندانوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ ادویات کی بدترین قلت نے صورتحال کو انتہائی تشویشناک بنا دیا ہے۔
اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ میں بیس لاکھ سے زیادہ فلسطینی انسانی ہمددردی کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور سب سے زیادہ خطرے کا سامنا کرنے والے افراد کی زندگیاں بچانے کے لیے 348 ملین ڈالرز کی ہنگامی طور پر ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ نے حال ہی میں مقبوضہ علاقوں کے 24 لاکھ میں سے 15 لاکھ فلسطینیوں کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد برائے 2020 کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کے بیشتر رہائشی ایسے ہیں، جن کی حالت بہت خراب ہے, مقبوضہ فلسطینی علاقے کے لیے انسانی ہمدردی کے رابطہ کار جیمی میک گولڈرک کہتے ہیں کہ غزہ کی لگ بھگ نصف آبادی بے روزگار ہے, اس تعداد میں 30 سال سے کم عمر کے ہر دس میں سے سات نوجوان ایسے ہیں جن کے پاس کوئی روزگار نہیں ہے, ان میں چار لاکھ سے زیادہ یونیورسٹی کے گریجوایٹس ہیں جو کوئی ملازمت تلاش نہیں کر سکتے۔
مک گولڈرک کہتے ہیں کہ غزہ میں بیشتر لوگوں کے پاس کھانے کو مناسب خوراک نہیں ہے, وہاں کے تمام گھرانوں میں سے 60 فیصد کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ غزہ میں صحت کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔ ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک جا چکی ہے۔
ادویات، طبی سامان اور آلات کی ترسیل کم ہو چکی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ شديد بیماریوں میں مبتلا لوگ اپنا علاج نہیں کروا سکتے۔وہ کہتے ہیں کہ اسرائیل مخالف مظاہروں کے دوران گولی لگنے سے زخمی ہونے والے ہزاروں لوگوں میں سے بہت سوں کو اپنے اعضا کاٹے جانے کا خطرہ ہے کیونکہ اعضا کو کٹنے سے بچانے کے لیے جن ادویات، طبی آلات اور ڈاکٹروں کی ضرورت ہے وہ دستیاب نہیں ہیں.