(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)سعودی عرب میں اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے رہ نماؤں کی گرفتاریوں کی خبریں سامنے آنے کے بعد برطانیہ کے دارالحکومت لندن سے نشریات پیش کرنے والے ‘العرب ٹی وی چینل’ نے ایک دستاویزی فلم نشر کی ہے جس میں حماس رہ نماؤں کی گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور حماس کےدرمیان تعلقات پربھی روشنی ڈالی ہے۔
یہ دستاویزی فلم ایک ایسےوقت میں جاری کی گئی ہے سعودی عرب کے شہر جدہ میں حماس کے تعلقات عامہ کے سربراہ ڈاکٹر محمد الخضری کی پانچ ماہ قبل گرفتاری کی خبر حال ہی میں سامنے آئی ہے۔
فلم میں ایک شخص کو ہاتھ میں ایک پوسٹر تھامے دکھایا گیا ہے جس پر سعودی عرب میں جبری طور پرلاپتا کیے گئے حماس رہ نمائوں اورکارکنوں کے نام درج ہیں۔ اس فہرست میں حماس کے سعودی عرب میں تعلقات عامہ کے سربراہ ڈاکٹر محمد الخضری اور جماعت کے بانی خیر الآغا کے صاحبزادے ابو عبیدہ الآغا کے نام بھی شامل ہیں۔دستاویزی فلم میں بتایا گیا ہےکہ سعودی عرب کی جیلوں میں کئی فلسطینی خواتین بھی پابند سلاسل ہیں۔ دارالحکومت الریاض میں قائم ‘حائر’ جیل میں قید خواتین کو بدترین جسمانی اور نفسیاتی اذیتوں کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ جدہ کی جیلوں میں بھی متعدد فلسطینی خواتین قید ہیں۔تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب میں گرفتار حماس رہ نماؤں میں سے بیشتر اردنی شہریت کے حامل ہیں۔
ذرائع کاکہنا ہےکہ سعودی عرب میں قید کیے گئے فلسطینیوں کی تعداد 100 سے زاید ہے۔ان گرفتاریوں کا سعودی عرب کے نئے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دادماد جیرڈ کشنرکےساتھ بھی گہرا تعلق ہوسکتا ہے کیونکہ بن سلمان اور جیرڈ کشنر کےدرمیان گہرے مراسم اور دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔