(روزنامہ قدس آن لائن خبر رساں ادارہ ) کسی بھی انسان کی ذاتی شخصیت کی تعمیر میں سب سے اہم اور بنیادی کردار اس کے حواس طاری کرتے ہیں،کسی بھی مخصوص چیز کی چھاپ یا تو اس کو باقی لوگوں سے منفرد بناتی ہے،لوگوں کو اسکے احترام پر مجبور کرتی ہے،یا انسان پر کسی منفی رویئے کی چھاپ اتنی گہری ہو جاتی ہے کہ لوگ اسکی کسی بھی ناکامی کو اس کے اسی حوالے سے تعبیر کرنے لگتے ہیں۔
ایک دانشور کا کہنا ہے کہ انسان کی شکست میں بنیادی کردار اس کے اندر کا خوف ادا کرتا ہے،اگر آپ اپنے اندر کا خوف مار لیں تو آپ پوری دنیا پر حاوی ہو سکتے ہیں،لیکن اگر آپ کسی چیز سے خوف زدہ ہیں تو خواہ وہ چیونٹی جتنی معمولی ہی کیوں نہ ہو آپ اس سے لازمی شکست کھائیں گے،کیوں کہ خوف ہی دو فریقوں کے درمیان جنگ میں بینادی کردار ادا کرتا ہے،اگر آپ نے خوف کو جیت لیا تو سمجھیں اپنے مخالف کوہرا دیا۔
دنیا ازل سے ہی مختلف تنازعات کا شکار رہی ہے،کہیں زبان،کہیں مذہب،کہیں نسل کہیں رنگ کی بنیاد پر لڑائیاں لڑی جاتی رہی ہیں،اور شاید تا قیامت ایسا ہی ہوتا رہے، لڑی جانے والی ہر دو لڑائیوں میں فریق برابر کے رہے تو وہ جنگ دیر تک چلی ورنہ ہمیشہ ایسا ہوتا رہا کہ طاقتور نے کمزور کو شکست دے دی،یہاں ایسی بہت کم مثالیں موجود ہیں کہ تعداد میں بہت مختصر سے گروہ نے بڑے دشمن کو شکست دے دی۔
ایسا شاید اب کہانیوں میں ہوتا ہے یہ فلموں میں،لیکن اس وقت لمحہ موجود میں ہماری سامنے ایک بہت بڑی زندہ مثال موجود ہے کہ تعد اد میں ایک بہت چھوٹے سے گروہ نے،جو مالی وسائل کے حوالے سے بھی بہت کمزور ہے،اپنوں نے بھی جس کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے،وہ ہتھیاروں کی ڈور میں پیچھے ہونا تو دور کی بات ہے اس دوڑ میں شریک تک نہیں ہے۔
لیکن وہ اپنے سے طاقت میں ہزاروں گنا بڑے دشمن کے سامنے سر اٹھائے کھڑا ہے،نہ ڈر رہا ہے،نہ گھبرا رہا ہے بلکہ اپنے قوی ہیکل دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرا رہا ہے، یہ فلسطینی ہیں جنہوں نے اپنی بہادری اور جرات سے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔
اگر آپ اپنے کسی ایک عزیز کو بھی اپنے ہاتھ سے دفنا دیں تو مسکراہٹ ایک طویل عرصے تک آپ کے چہرے سے روٹھ جاتی ہے اور آپ کی ذات مسلسل کسی خوف کے حصار میں رہتی ہے،لیکن فلسطینی قوم کو شاید خوف نام کی کوئی چیز چھو کر بھی نہیں گزری کہ وہ مسلسل اپنوں کی لاشیں دفنا رہے ہیں،لیکن اپنے طاقتور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرا رہا ہے،اس اسی بات پر اسکے دشمن کی اذیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے،کہ اسکا واسطہ کن لوگوں سے پڑا ہے۔جن کو بڑی سی بڑی آزمائش بھی خوف زدہ نہیں کر سکی۔
فلسطینی لوگ جیل کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں،موت انکو ہراساں نہیں کر سکتی،کسی بھی قسم کا جسمانی تشدد بھی انکے حوصلہ پسپاں نہیں کر سکتا۔دشمن بھی حیران ہے کہ ایسی کون سی چیز پیدا کی جائے جو اہل فلسطین کے حوصلے کم کر سکے لیکن دشمن ہمیشہ کی طرح ناکام و نا مراد رہے گا۔ یہاں میں قارئین سے ایک ذاتی تجربہ میں شریک کروں ہوا کچھ یوں کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر میرا رابطہ فلسطین کے ایک نوجوان سے ہوا، ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد صیہونی مظالم کا زکر لازمی تھا میں نے اس سے پوچھا کہ جو وہاں کہ حالات ہے اسرائیلی فوجی کسی کو بھی کہیں بھی کسی وجہ کے بغیر بھی قتل کردیتے ہیں اغواء کرلیتے ہیں بدترین ازیت کا نشانہ بناتے ہیں اس صورتحال میں کبھی آپ کو خوف آتا ہے؟ میں اس نوجون کے جواب پر حیران ہوگیا اس نے میرے سوال کو حیرت سے سنا اور یقین جانیئے کے بے نیازی سے مجھ ہی سے سوال کر ڈالا کہ اس نے کہا ( خوف؟ یہ کیا ہوتا ہے ) اس کے یہ پانچ الفاظ مجھے بخوبی سمجھا گئے کہ وہ کیا چیز ہے جو دنیا کو اپنے اشارے پر چلانے والے اسرائیل کو بے بس کیئے ہوئے ہے ۔ ادویات اور خوراک سے محروم اس مظلوم قوم نے کیسے جدید ترین ہتھیاروں والے بے پناہ طاقتور ملک کو جھنجھلاہٹ کا شکار کیا ہوا ہے کہ طاقت کا بے پناہ استعمال کرنے کے باوجود اسرائیل آج بھی شدید ترین مزاحمت کا سامنا کررہا ہے اور یہ ہی وہ طاقت ہے جس نے فلسطین کو آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔
تحریر: تحسین عزیز