(روزنامہ قدس-آنلائن خبر رساں ادارہ ) دنیا بھر کے بزعم خود نام نہادٹھیکیدار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں جون کے آخری عشرے میں خلیجی ریاست بحرین میں صدی کی ڈیل کے نام سے ایک نام نہاد اقتصادی و معاشی کانفرنس منعقد کی گئی،جس کا درحقیقت اصل مقصد غیور فلسطینی عوام کو معاشی سہولیات کا لالچ دے کر ان کو اپنے حق آزادی سے باز رکھنے کی ایک گھناونی کوشش ہے جس میں بد قسمتی سے چند مسلمان ممالک کے سربراہان بھی شریک ہیں۔
اس کانفرنس پر بات کرتے ہوئے تبصرہ نگاروں کا یہ کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کو معیشت بحال کرنے کی جھوٹی تسلی وہی لوگ دے رہے ہیں جنہوں نے برس ہا برس کی محنت سے فلسطینی معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا ہے۔اور وہی قوتیں اب یہ جھوٹا تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ سیاسی یا انسانی نہیں بلکہ معاشی ہے،اور پیسہ خرچ کر کے ہم دہائیوں سے سلگتے مسئلہ فلسطین کو فورا کسی منطقی انجام تک پہنچا سکتے ہیں۔
بحرین کے دارالحکومت مناما میں 25 اور 26 کو ہونے والی اقتصادی ورکشاپ میں ‘صدی کی ڈیل’ کے امریکی منصوبے کا معاشی پہلو پیش کیا گیا۔
فلسطین کے تمام سیاسی اور مذہبی گروہوں نے مکمل طور پر اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ فلسطینوں کا یہ کہنا تھا کہ یہ کانفرنس درحقیقت امریکی مدد سے صیہونی ریاست کے اقتصادی ماڈل کی ترویج ہے ماہرین کا کہنا ہےکہ اسرائیل اپنی ناجائز خواہشات پوری کرنے کے لیے خود پس پردہ کردار ادا کر رہا ہے اور سامنے امریکہ کو رکھا ہوا ہے۔
تجزیہ نگار ابراہیم حبیب کے مطابق مناما کانفرنس میں تین جوہری مسائل ارض فلسطین، پناہ گزینوں اور مقدسات کو نظرانداز کیا گیا۔ منامہ کانفرنس کو دو بڑے عرب ملکوں مصر اور اردن کے کامیاب بنایا۔ اگر یہ دونوں ملک اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرتے تو یہ کانفرنس مکمل طور پر ناکام ہو جاتی۔