رام اللہ(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)آج سےتقریبا ۲۶ سال پہلے، فلسطینی عوام اور تنظیم، پیشرفتہ عرب معاشرے کے سب سے بڑے جال میں پھنس گئیں ۔ یہ جال اسرائیل، اس کے کچھ عرب اور مغربی اتحادیوں نے بچھایا تھا، اس جال میں عرب آنکھ کھول کر پھنسے اور اب تک چھٹپٹا رہے ہیں ۔
روزنامہ قدس کے مطابق ۲۰ اگست ۱۹۹۳ میں پہلی بار فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان اوسلو معاہدہ ہوا جسے اوسلو معاہدے کے نام سے جانا جاتا ہے اور پھر ۱۳ ستمبر کو واشنگٹن میں بل کلنٹن، یاسر عرفات اور اسحاق رابن کی موجودگی میں اس معاہدے کو نافذ کر دیا گیا۔
وائٹ ہاوس میں اس موقع پر فوٹو سیشن میں مسکراتے چہرے زیادہ تر فلسطینیوں کو زہر لگے کیونکہ اس معاہدے میں انہیں وعدے ملے تھے فقط ۔
یاسر عرفات پر بہت زیادہ دباؤ تھا ۔ زیادہ تر عرب ممالک اور خاص طور پر خلیج فارس کے ممالک ان پر دباؤ ڈال رہے تھے کیونکہ جنگ کویت کے وقت وہ عراق کے ساتھ تھے ۔ ان پر عرب، یورپی ممالک اور فلسطینی حلقوں کا دباؤ تھا اسی لئے وہ اوسلو کے راستے پر نکل پڑے اور جسے تیار کرنے میں محمود عباس کا بڑا ہاتھ تھا ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تیونس میں میں یاسر عرفات کے ساتھ چہل قدمی کے لئے نکلا تو اچانک وہ مجھے الگ لے گئے اور مجھ سے کہا کہ میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں لیکن یہ بھی چاہتا ہوں کہ بات میری زندگی میں تم کسی سے نہیں کہو گے ۔ پھر انہوں نے کہا کہ میں اوسلو کے راستے پر فلسطین جا رہا ہوں، میں خبردار ہوں، تاہم فلسطین کو اس کی تنظیم اور اس کی مزاحمت پھر سے واپس لوٹاؤں گا۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تم یہودیوں کو فلسطین سے اسی طرح فرار ہوتے دیکھو گے جیسے غرق ہوتے جہاز سے چوہے فرار کرتے ہیں، لیکن یہ میری زندگی میں نہیں ہونے والا، البتہ تمہاری زندگی میں یہ ہوگا۔ اس ساتھ ہی انہوں نے تاکید کی کہ انہیں اسرائیلیوں پر اعتماد نہیں ہے اور مجھے یقین ہو گیا ہے کہ وہ سچ بول رہے تھے ۔
یاسر عرفات شہید ہوگئے جس کی انہیں خواہش تھی ۔ کئی مہینوں تک انہیں ان کے دفتر میں نظر بند رکھا گیا اور پھر اسرائیلی زہر سے انہیں ہلاک کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط سے انکار کر دیا تھا، کیونکہ انہوں نے بیت المقدس چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا، کیونکہ انہیں واپسی کے حق سے پسپائی قبول نہیں تھی اور کیونکہ انہوں نے دوسرے مسلحانہ انتفاضہ کو ہوا دی تھی اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ غزہ میں تحریک حماس کے ساتھ تعاون کرتے تھے، مالی اور اسلحہ جاتی، اس کے لئے انہوں نے جنوبی لبنان میں سرگرم حزب اللہ کے ساتھ مل کر ایک پل بنایا تھا جو ڈرم کے اندر اسلحے بھر کر پانی کے جہازوں کی مدد سے غزہ پٹی میں حماس کے پاس پہنچاتے تھے کیونکہ یہ سمجھ گئے تھے کہ اسرائیلیوں کو امن نہیں چاہئے اور یہ کہ اسرائیل معاہدہ نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی فلسطین ملک کی تشکیل کی اجازت دینے والے ہیں ۔
میں اس بارے میں زیادہ اسرار سے پردہ نہیں ہٹانا چاہتا اور نہ ہی یاسر عرفات کی زیادہ تعریف و تمجید کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اوسلو معاہدہ ایک تاريخی غلطی تھی اور وہ زہر بجھا تیر اب تک فلسطینیوں کے دل میں پھنسا ہوا ہے اور آج عربوں کی سازی توہین اور بے عزتی کی جڑ یہی معاہدہ ہے، یہاں تک کہ یہ جو سینچری ڈیل کی بات ہو رہی ہے، اس کی جڑ بھی یہی معاہدہ ہے۔
مجھے پورا یقین ہے کہ سینچری ہو یا کوئی بھی ڈیل، مسئلہ فلسطین کو ختم نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس طرح کی کسی ڈیل سے عرب – اسرائیل تنازع ختم ہوگا۔
بقلم عبد الباری عطوان