(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) ہمیشہ جب بھی اسلامی معاشرے کو کسی خطرے کا سامنا ہوا تو علمائے دین اسلامی معاشرے کے تحفظ کے لیے میدان کارزار میں نکل آتے رہے ہیں اور اپنی جانوں تک کی قربانی دے کر خطرات کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ سرزمین فلسطین پر عالمی صہیونیت کے قابض ہو جانے کے بعد یہ دینی علماء ہی تھے جو اس عظیم خطرے کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور امت مسلمہ کے اندر اسلامی بیداری کی لہر پیدا کی۔ لیکن یہاں پرجو چیز حائز اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں زیادہ تر ایران اور عراق کے علماء ہی پیش قدم رہے ہیں۔ اگر چہ فلسطین سنی مذہب کے پیرو مسلمانوں کا ملک ہے لیکن کبھی بھی یہ مذہبی اختلاف اس بات کا باعث نہیں بنا کہ علماء فلسطین کے حوالے سے اپنے موقف کو تبدیل کریں۔
اس اعتبار سے بعض بزرگ اور ممتاز علماء جو صہیونیت کے خطرے کے مقابلے میں مجاہدت کرتے رہے ہیں ذیل میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛
سید عبد الحسین شرف الدین
سید عبد الحسین شرف الدین صف اول کے ان ممتاز علماء میں سے ایک ہیں جو ۱۹۴۸ میں اسرائیل کی تشکیل سے پہلے ہی یہودیوں کے خطرات کی طرف متوجہ تھے۔ وہ اس دور میں جب فلسطین برطانیہ کے زیر قبضہ تھا دنیا سے یہودیوں کی فسلطین ہجرت کو اس ملک کے مستقبل کے لیے خطرناک قرار دیتے تھے۔ اگر چہ سید شرف الدین کی سرگرمیوں کا دائرہ لبنان میں محدود تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی پوری زندگی تلاش و کوشش کی کہ صہیونی ریاست کی تشکیل کی راہ میں رکاوٹ پیدا کریں۔ انہوں نے عالمی برادری سے بھی برطانیہ کے موقف کے خلاف اعتراض کرنے اور یہودیوں کی فلسطین ہجرت اور صہیونیوں کی سرگرمیوں کو رکوانے کا مطالبہ کیا۔ (۱)
علامہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء
علامہ کاشف الغطاء کی نگاہ میں صہیونی ریاست کا مسئلہ ایک ایسا معضل تھا جو مغربی استکباری طاقتوں (امریکہ و برطانیہ) کے ذریعے وجود میں آیا۔ وہ تاکید کرتے تھے کہ تمام مسلمان اس مشکل کو برطرف کرنے کے لیے کوشش کریں۔ وہ صہیونیت کو تمام عالم اسلام کی مشکل قرار دیتے تھے کہ جو تین وجوہات کی بنا پر عالم اسلام کو درپیش تھی ایک مسلمانوں میں اتحاد کے نہ ہونے، دوسرے مسلمان حکومتوں کی کمزوری اور سب سے زیادہ اہم دوسری عالمی جنگ کے بعد عربوں اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہونے کی بنا پر اس سرطانی پھوڑے نے جنم لیا۔
انہوں نے کئی اسلامی ممالک کا سفر کیا، ۱۳۵۰ ھ کو انہوں نے قدس شریف کا دورہ کر کے مسلمانوں کو صہیونی جرائم کے خطرات سے آگاہ کیا۔ نیز اسرائیل کی تشکیل اور چھے روزہ جنگ کے بعد عرب ممالک کے سربراہوں کو جنگ میں کوتاہی کی وجہ سے ان کی مذمت کی اور اسرائیل کے مقابلہ کے لیے جہاد کا فتویٰ دیا اور تمام اسلامی ممالک سے اس جہاد میں شرکت کا مطالبہ کیا۔ (۲)
شیخ عبد الکریم زنجانی
زنجانی نے بھی مصر، لبنان، فلسطین اور شام کے ممالک میں سفر کر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی اور انہیں استعماری طاقتوں کے خلاف مجاہدت کرنے کی ترغیب دلائی۔ انہوں نے فلسطینی مفتی سید محسن کی دعوت پر مسجد الاقصیٰ کی زیارت اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات کے لیے فلسطین کا دورہ کیا۔ فلسطینی علماء اور عوام نے شیخ زنجانی کا پرتباک استقبال کیا۔ انہوں نے ان کے درمیان صہیونیت اور استکباری طاقتوں کے خلاف پرجوش تقریر کی کہ جو وہاں کے لوگوں کے درمیان “خطبہ ناریہ” کے نام سے معروف ہو گیا۔
انہوں نے اپنے اس خطاب میں اسرائیلی رہنماوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“کیا تم خدا کے ساتھ جنگ کرو گے؟ جبکہ خدا کی کامیابی یقینی ہے۔ وہ جو فلسطین میں اسرائیل نامی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ یہودیوں کے لیے ایک اقتدار اور عزت حاصل کریں اور اس مقصد تک پہنچنے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کریں، انہیں جان لینا چاہیے کہ وہ اس خدا کے ساتھ برسرپیکار ہیں جس نے یہودیوں کے لیے ذلت اور پستی قرار دی ہے۔ (۳)
سید محسن طباطبائی حکیم
سیدحکیم خود بھی اسلامی تحریک آزادی تنظیم کی مدد کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنے کی ترغیب دلاتے تھے۔ انہوں نے بیت المقدس کی نجات کے لیے فلسطین اور اسلامی وحدت کے لیے متعدد بار کئی اہم بیانات جاری کئے۔ انہوں نے عراقی حکومت کو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے خلاف عوام کو احتجاجی مظاہرے کرنے سے روکنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ عراقی حکومت ان سے معافی مانگنے پر مجبور ہو گئی۔ (۴)
سید ابوالقاسم کاشانی
سید کاشانی کی جہادی سرگرمیاں ۱۹۴۷ سے پہلے کی طرف پلٹی ہیں ۱۹۴۷ میںایک موقع پر ہزاروںمسلمان آپ کے محلے میں جمع ہوئے آپ نے اس دور کو امام حسین عالی مقام کے زمانے سے موازنہ کرتے ہوئے لوگوں کو ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا: “فلسطین میں ہمارے بھائی سخت حالات سے گزر رہے ہیں۔ ان کے گھروں اور زمینوں پر یہودیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ ان کی جان و مال اور عزت یہودیوں کے ہاتھوں تاراج ہو رہی ہے، دنیا کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں اور ان کی مدد کے لیے آگے بڑھیں”۔ انہوں نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے مسلمانان عالم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: “کیا یہ درست ہے کہ دنیا کی پست ترین قوم مسلمانوں کے ساتھ اس طرح سے ناروا سلوک کرے اور مسلمان آرام و سکون سے بیٹھے رہیں”۔
اسی سال سیدکاشانی نے فلسطینی عوام کی حمایت میں ایک بیانیہ جاری کر کے غاصب اسرائیلی حکومت کی تشکیل کو پوری دنیا کے لیے خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے نہ صرف بیان جاری کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ لوگوں کو تہران کی شاہی مسجد (موجودہ مسجد امام خمینی) میں فلسطین کی حمایت میں احتجاجی اجتماع کرنے کی دعوت دی۔ یہ چیز باعث بنی کہ حکومت وقت نے انہیں اس اجتماع میں تقریر کرنے سے روک دیا۔ سید کاشانی نے اسرائیل کے خلاف اپنی مجاہدت جاری رکھی اور آخر کار شاہی حکومت انہیں لبنان ملک بدر کرنے پر مجبور ہو گئی۔ ملک بدر کرنے سے نہ صرف سید کاشانی کی اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ لبنان میں یہ سرگرمیاں مزید شعلہ ور ہوئیں اور آخرکار حکومت ایران کو انہیں واپس وطن لوٹانا پڑا۔ (۵)
آیت اللہ بروجردی
عالم تشیع کے اس مرجع تقلید کی سرگرمیاں صرف ایران میں محدود نہیں تھیں بلکہ صہیونی ریاست کی تشکیل اور عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ہوئی جنگ کے بعد آیت اللہ بروجردی نے ایک بیان جاری کر کے مسلمانان عالم کو صہیونی ریاست کے خلاف اور فلسطینی عوام کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے کی دعوت دی۔ انہوں نے اپنے اس بیانیے میں فلسطینی عوام کے ساتھ یہودیوں اور صہیونیوں کے غیر انسانی برتاو کی وجہ سے مسلمانوں کو فلسطینی عوام کی کامیابی اور یہودیوں کی شکست کے لیے اجتماعی طور پر دعا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ (۶)
محمود طالقانی
طالقانی نے ۱۹۴۸ء سے صہیونیت کے خلاف اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ایران کے عوام کو صہیونیت کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے کئی بیانیے جاری کئے اور تقریریں کیں۔ طالقانی کے لیے یہ مسئلہ اتنا اہم تھا کہ انہوں نے ۱۹۷۹ میں اپنی شہادت سے بیس دن پہلے اپنی ایک تقریر میں مسئلہ فلسطین کو امت مسلمہ کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا اور عالم اسلام سے مطالبہ کیا کہ قدس کی آزادی کو اپنے امور میں سرفہرست قرار دیں۔ (۷)
علامہ طباطبائی
سید ہادی خسرو شاہی علامہ طباطبائی کے بارے میں کہتے ہیں: آپ علمی سرگرمیوں کے علاوہ عالم اسلام کے اہم مسائل کے بارے میں بھی اظہار رائے کرتے تھے ان اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ فلسطین تھا۔ علامہ طباطبائی آقائے مطہری اور سید ابوالفضل زنجانی کے ہمراہ تہران کے ایک بینک میں مشترکہ اکاونٹ کھلواتے ہیں اور لوگوں کو فلسطینی عوام کی مدد کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
انہوں نے یہ اقدام اس حدیث «من سمع رجلاً ینادی یا للمسلمین فلم یُجبیه فلیس بمسلم» کی روشنی میں انجام دیا لیکن بعد میں حکومتی کارندوں “ساواک” نے یہ اکاونٹ بند کروا کر اس حوالے سے انجام پانے والی سرگرمیوں کو روک دیا۔(۸)
گلپائیگانی
آیت اللہ گلپائیگانی نے چھے روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران ایک بیانیہ جاری کر کے فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے مسجد الاقصیٰ کے آتش سوزی کے واقعہ کے موقع پر بھی ایک سخت بیانیہ جاری کیا اور مسجد اعظم قم میں اس اقدام کے خلاف تقریر کی۔ (۹)
صہیونی ریاست کی تشکیل کے بعدآیت اللہ خمینی (رہ) کے علاوہ کئی دیگر علماء جیسے میلانی، مرعشی نجفی، خوئی، بہبہانی، سید عبد اللہ شیرازی، امام موسی صدر۔۔۔ نے فلسطینی عوام کے دفاع اور غاصب اسرائیل کے ظالمانہ رویے کے خلاف مجاہدت کی اور یہ انہیں مجاہدتوں اور زحمتوں کا نتیجہ ہے کہ آج مسئلہ فلسطین پوری دنیا کا ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے پوری دنیا میں صہیونی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا جاتا ہے اور آج عالمی یوم القدس کے موقع پر پوری دنیا میں احتجاجی جلوس نکانے جاتے ہیں۔ (۱۱)