(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)مکہ معظمہ اہل اسلام کے لیے مقدس ترین سرزمین ہے۔ دنیا بھر میں رہنے والے مسلمانوں کی یہ خواہش ہے کہ وہ کم از کم زندگی میں ایک بار اللہ کے گھر کی زیارت کریں۔ مکہ اہل اسلام کی امیدوں کا مرکز ہے، اسلام کا آغاز مکہ سے ہوا، جب تک بیت اللہ کی عظمتیں باقی ہیں، اس وقت تک اسلام کی عظمتیں بھی سلامت ہیں۔ مسلمان فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور ان کی مساجد تک الگ الگ ہوچکی ہیں، دنیا میں دو مقامات ایسے ہیں جہاں پہنچ کر یہ سارے اختلافات ختم ہو جاتے ہیں، ایک اللہ کا گھر بیت اللہ اور دوسرا مسجد نبوی۔ عرصہ سے اہل اسلام کی خواہش ہے کہ بیت اللہ سے اسلام کا پیغام دنیا بھر کے مسلمانوں کی رہنمائی کرے۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں، کسی بھی کلمہ گو پر کوئی آفت آئے تو یہاں سے ایک مضبوط آواز اس کی حمایت میں اٹھنی چاہیئے۔ ہر سال حج و عمرہ کی غرض سے آنے والے کروڑوں اہل ایمان بھی اس رہنمائی کے محتاج ہوتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں سے اسلام کا پیغام دیا جاتا، مگر کافی عرصے سے وہاں سے ایک مسلک کی نشر و اشاعت اور دوسرے مسلمان مسالک کی تکفیر کا کام کیا جاتا رہا ہے۔ وہ وسائل جو اتحاد و امت کے لیے خرچ ہونے چاہیئں تھے، وہ فرقہ پرستی کی نظر ہو رہے ہیں اور جو موقع جوڑنے کے لیے قدرت نے عطا کیا تھا، وہ توڑنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس وقت عالم اسلام کی تین بڑی تنظیموں کے اجتماعات مکہ معظمہ میں ہو رہے ہیں، اس لیے جہاں دنیا بھر سے آئے معتمرین سے کعبہ کی رونقوں میں اضافہ ہوچکا ہے، وہیں سیاسی قیادت بھی مکہ معظمہ میں موجود ہے۔ عالم اسلام کے حکمرانوں کی تنظیم جو مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے بنائی گئی تھی، اب اس سے مسلمانوں کو سلانے کا کام لیا جاتا ہے، یعنی او آئی سی کا اجلاس بھی مکہ معظمہ میں ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں شرکت کے لیے بڑی تعداد میں اسلامی ممالک کے سربراہان آ رہے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ اجلاس ایسے موقع پر ہو رہا ہے، جب او آئی سی اپنی پچاسویں سالگرہ بھی منا رہی ہے۔ ۱۹۶۹ء میں مسجد اقصی کی حفاظت اور تحفظ کے لیے بنائی گئی یہ تنظیم اپنے اس بنیادی مقصد میں ہی ناکام رہی۔ اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو آج حالات ۱۹۶۹ء سے بھی گھمبیر ہوچکے ہیں، اسرائیل کا اسلام ممالک میں نفوذ پہلے سے بہت زیادہ ہوچکا ہے، ۱۹۶۹ء میں کسی اسلامی ملک کے لیے بہت مشکل تھا کہ وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بات کرے، آج بہت سے ممالک علی الاعلان اسرائیل سے تعلقات رکھتے ہیں اور کچھ نے خفیہ طور پر تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔
۲۷ مئی رابطہ عالم اسلامی کے زیراہتمام اسلام کی اعتدال پسندانہ تعلیمات اور دین متین کی روشن اقدار کے حوالے سے چار روزہ بین الاقوامی کانفرنس مکہ معظمہ میں منعقد ہوئی۔ رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری الشیخ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ کے مطابق اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد اسلام کی اعتدال پسندانہ تعلیمات کو فروغ دینا ہے۔ العیسیٰ کا کہنا تھا کہ چار روز تک جاری رہنے والی کانفرنس میں مسلم دنیا کے جید علماء کرام، دانشور اور سرکردہ شخصیات شرکت کریں گے۔ مسلم امہ کے نوجوانوں کو اسلام کی اعتدال پسندانہ تعلیمات سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں سعودی عرب نے جس اعتدال پسند اسلام کا نعرہ لگایا، اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ سعودی عرب میں پہلے سینما گھر کو کھول دیا گیا، سرزمین وحی پر یورپی گلوکاروں کے کنسرٹس معمول بن رہے ہیں۔ عرب امارات نے عرب دنیا کے سب سے بڑے مندر کا افتتاح کیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ چودہ سو سال پہلے جس بت پرستی کو عرب معاشرے سے اللہ کے رسول(ع) نے بے دخل کر دیا تھا، اب اس کو دوبارہ رواج دیا جارہا ہے۔ صرف انڈیا کو خوش کرنے کے لیے اس طرح کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب ہر اس آواز کو خاموش کر رہا ہے، جو ان کے اسلام مخالف اقدامات کے خلاف اٹھ رہی ہے۔ ابھی عید کے فورا بعد سعودی عرب کے تین چوٹی کے علماء کا فقط نظریاتی اختلاف پر سر قلم کیا جائے گا، ان میں شیخ سلمان العودہ، عوض القرنی اور علی العمری شامل ہیں۔ یاد رہے کہ ان میں سے ہر ایک دسیوں کتابوں کے منصنف اور لاکھوں پیروکار رکھتے ہیں، انہیں دنیا بھر میں فالو کیا جاتا ہے۔
۳۰ مئی کو مکہ میں خلیجی تعاون کونسل گلف (جی سی سی) کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔اس اجلاس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں قطر کو کافی عرصے بعد شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ تیل پیدا کرنے والے یہ امیر ترین ممالک کی تنظیم ہے، جو مسلمانوں کے وسائل کا بڑا حصہ رکھتی ہے۔ قطر اور سعودیہ کے شدید اختلافات کی وجہ سے جہاں خطے میں تناو تھا، وہی اس تنظیم کی فعالیت پر بھی اثر پڑا تھا۔ ان تینوں اجلاسوں کا تقریبا ایک ہی وقت میں مکہ معظمہ میں ہونا محض اتفاق نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے آل سعود کا خوف ہے۔ جب سے خلیج میں دو آئل ٹینکرز کو نقصان پہنچا ہے اور اس کی آئل پائپ لائن پر حملہ ہوا ہے اور اسی طرح نجران ائرپورٹ پر ڈرون سے بمباری کی گئی ہے، سعودی عرب میں خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ اب سعودی حکومت کو خطے میں بدامنی نظر آرہی، اب وہ چاہ رہے ہیں کہ سب مل کر اس کا مقابلہ کریں۔ یہ تینوں کانفرنسز خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کی بالواسطہ یا بلاواسطہ سعودی کوششیں ہیں۔ موجودہ گھمبیر حالات میں سعودی اور قطری اختلافات امریکی مفاد میں نہیں تھے، اس لیے جب وہاں سے حکم آیا تو سعودی شاہ نے قطر کو دعوت دے دی اور قطر نے فورا اسے قبول بھی کر لیا۔ اب دو امریکی اتحادی کندھے سے کندھا ملا کر امریکی مفادات کے لیے مل کر کام کریں گے اور تیل و گیس کی سپلائی کو یقینی بنائیں گے، ساتھ میں خطے میں یمنی خطرے کو بھی مل کر ڈیل کریں گے۔
رابطہ عالم اسلامی کی کانفرنس عوامی سطح پر سعودی مفادات کے لیے زمینہ سازی کرنے کی کوشش ہے۔ اسلامی ممالک سے دوسرے درجے کی مذہبی قیادت کو بلایا جاتا ہے اور انہیں بھرپور پروٹوکول دے کر اپنا گرویدہ کر لیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست کے مطابق عمرے کو سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان سے بہت سے شخصیات گئی ہوئی ہیں، کچھ یقینا خلوص کے ساتھ امت مسلمہ کی بھلائی کے لیے گئی ہوں گی، مگر انہیں امت کی بجائے آل سعود کی بھلائی کے لیے استمال کیا جاتا ہے۔ او آئی سی کو بھی ایک ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جب دیکھا کہ اس کے ذریعے سے کچھ دباو بڑھایا جاسکتا ہے، فورا اس کا اجلاس بلا لیا۔ ہمارے حکمران بھی پہلے سے اس کے لیے آمادہ بیٹھے ہوتے ہیں، جہاز پکڑتے ہیں اور نکل جاتے ہیں، انہیں بھی چاہیئے کہ پاکستانی مفادات جیسے کشمیر ایشو پر یقین دہانیاں لے کر پھر شرکت کریں۔
ان تینوں کانفرنسز میں فلسطین اور اہل فلسطین کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہوگی۔ کہیں دبے لفظوں میں ذکر کر دیا تو وہ بھی اس ڈر سے کہ کہیں مسلم عوام ناراض نہ ہو جائیں، ورنہ تو اس طرح کی کانفرنسز درپردرہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مبھم کوششیں ہی ہوتی ہے۔سعودی عرب ان تینوں اداروں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور اس کارویہ آمرانہ ہے، جو بھی اس کی مخالفت کرے، اس کا بائیکاٹ کر دو، اس حوالے سے قطر کی مثال سامنے ہے۔یہ کانفرنسز سعودی عرب کا تحفظ نہیں کرسکیں گی، سعودیہ اسی صورت میں محفوظ اور مستحکم ہوسکتا ہے، جب وہ امریکی سرپرستی سے نکل آئے، یمن اور دیگر جگہوں پر مسلمانوں کا قتل عام بند کرے، اندرون ملک بےگناہ علما و کارکنوں کے سرقلم کرنے کا سلسلہ روکے اور اسرائیل کی بجائے فلسطین کے وکیل بن جائیں۔
تحریر :ڈاکٹر ندیم