منامہ(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) ڈاگلس میک گریگور (Douglas McGregor) نے اس سلسلے میں اظہار خیال کے ضمن میں یہ دعوی بھی کیا ہے کہ “یہ مسلمانوں کی اپنی جنگ ہے اور اس کا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں ہے!!”۔
روزنامہ قدس کے مطابق ڈاگلس میک گریگور ـ جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ جان بولٹن کی جگہ قومی سلامتی کے مشیر کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں ـ نے ٹرمپ کے بعض حاشیہ برداروں پر شدید تنقید کی ہے جو مغربی ایشیا میں جنگی صورت حال پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور کہا ہے کہ “سعودی عرب اپنے مقاصد کے حصول کے لئے امریکہ کو علاقے میں گھسیڑنا اور جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں”۔
ڈاگلس میک گریگور امریکی فوج کے سبکدوش کرنل ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اب جبکہ ٹرمپ جان بولٹن کی آتش افروزیوں سے ناراض ہیں اور سمجھ چکے ہیں کہ بولٹن ان کی تجارتی ذہنیت کا ساتھ دینے سے عاجز ہیں، تو ممکن ہے کہ انہیں عنقریب ہٹا کر اس سابق کرنل کو سلامتی کے مشیر کا عہدہ سونپ دیں۔
میک گریگور نے اپنے ایک انٹرویو میں ٹرمپ کے بعض مشیروں کی طرف سے ایران کے ساتھ جنگی صورت حال پیدا کرنے کی کوششوں کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ کو اپنے جنگی جہاز خلیج فارس سے نکالنا پڑیں گے۔
میک گریگور نے فاکس نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے مغربی ایشیا میں امریکی نفری اور فضائی دفاعی نظام بھجوانے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: یہ بالکل ایک دفاعی مجموعہ ہے اور کسی صورت میں بھی ایک جارحانہ مجموعہ نہیں ہے اور ہم معمول کے مطابق، بحرانی صورت حال یا کسی بھی کشیدگی کی صورت میں اس طرح کی امداد بھجواتے ہیں تا کہ اپنے دوستوں اور شرکاء کو یقینی دہانی کروائیں کہ اگر ایران نے ان کی طرف میزائل پھینکا تو ہم ان میزائلوں کو گرانے میں ان کی مدد کریں گے۔
انھوں نے کہا: ایرانی میزائلوں کا رخ امریکہ کی طرف نہیں ہے اور میرے خیال میں وائٹ ہاؤس میں یک رکنی ٹیم ہے یہ لقب میں [گریگور] نے صدر ٹرمپ کے لئے منتخب کیا ہے کیونکہ وہ واحد شخص ہیں جو اعلانیہ طور پر مغربی ایشیا میں ایران کے ساتھ کسی بھی کشیدگی کی مخالفت کررہے ہیں۔
انھوں نے کہا: یہ یک رکنی ٹیم شدت سے کوشش کررہی ہے کہ اپنی روش سے کشیدگی کو کم کرے، لیکن انہیں حقیقتا اپنا جارح بحری بیڑہ خلیج فارس سے نکالنا پڑے گا۔ انہیں اسے یہ بیڑہ نکالنا پڑے گا اور بحیرہ عرب یا حتی بحیرہ روم کے مشرق میں تعینات کرنا پڑے گا۔ جناب صدر اپنا بیڑہ وہاں سے باہر نکالیں کیونکہ ٹریگر وہیں ہے اور درد سر کا ممکنہ عنصر یہی ہے۔
امریکی حکومت نے چند ہفتے قبل ابراہیم لنکن نامی طیارہ بردار جہاز کی قیادت میں ایک بحری بیڑہ خلیج فارس کی طرف روانہ کیا ہے۔ واشنگٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیٹریاٹ فضائی دفاعی نظام کے کئی سسٹم اور تقریبا ۱۵۰۰ فوجی بھی “ایرانی خطرے” کے مقابلے میں “تسدیدی اقدام” کے طور پر علاقے میں روانہ کئے جائیں گے۔
مسلمانوں کے خون کے پیاسے مسلمانوں کے لئے لمحۂ فکریہ؛
سعودی، نہیانی اور یہودی امریکہ کو ایران سے لڑانا چاہتے ہیں! یہ مسلمانوں کی جنگ ہے
سوال ہوا کہ کیا ایران امریکہ کے لئے حقیقی خطرہ ہے؟ تو میک گریگور نے جواب دیا: “نہیں! ہرگز ایسا نہیں ہے۔ ایران بالکل ہمارے لئے خطرہ پیدا نہیں کررہا ہے بلکہ یہ جنگ اصولی طور پر مسلمانوں کی آپس کی جنگ ہے جس کے ہم شاہد ہیں۔ آپ کے پاس خلیج فارس میں ایک طرف سعودی اور اماراتی ہیں جو کشیدگی کو ہوا دے کر ہمیں بھی اس میں الجھانا چاہتے ہیں! ہم بظاہر ان کی حفاظت کے لئے وہاں ہیں! لیکن وہ ہمیں ایران کے ساتھ جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ روز روشن کی طرح عیان ہے کہ اسرائیلی بھی اس کشیدگی کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن حال حاضر میں سعودی عرب اور خلیج فارس کے عرب ہیں جو ہمیں اس کشیدگی کا فریق بنانا چاہتے ہیں۔ (۱)
ان کا کہنا تھا: واضح ہے کہ خلیج فارس کے عرب حکمران یمن میں جاری صورت حال سے ناراض ہیں [اور وہ یمنیوں کی مزاحمت سے عہدہ برآ ہونے سے عاجز ہوچکے ہیں] وہ چاہتے ہیں کہ ایران عراق اور شام سے نکال باہر کیا جائے۔ اور ان کے پاس امید کی واحد کرن یہی ہے کہ ہمیں جنگ میں الجھا دیں تا کہ ہم یہ کام ان کے لئے سرانجام دیں۔ (۲)
سوال کیا گیا کہ کیا ایران کے ساتھ کشیدگی امریکی مفاد میں نہیں ہے؟ تو میک گریگور نے جواب دیا: حقیقت یہ ہے اس یک رکنی ٹیم کو عالمگیریت اور امریکی مداخلت کے حامیوں نے گھیر لیا ہے جو بہت سے معاملات میں خلیج فارس کے عرب حکام، سعودی ریاست اور یہودی ریاست کے ساتھ قریبی تعلقات میں جڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ ہر وہ اقدام بروئے کار لانا چاہتے ہیں جو امریکہ کو ایران کے ساتھ جنگ میں الجھا دیں۔
الفجیرہ کے دھماکے میں ایران ملوث نہیں تھا
میک گریگور نے کہا: یک رکنی ٹیم بیٹھتی ہے اور کہتی ہے کہ ایک منٹ صبر کرو، کیوں؟ اس لئے کہ ہم اس سے پہلے بھی اس طرح کے مراحل سے گذرے ہیں۔ کوئی بھی ثبوت دستیاب نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ تیل کے ٹینکروں پر حملے سے ایران کا کوئی تعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی ایرانیوں کو پہچانتا ہے وہ جانتا ہے کہ اگر ایران ان جہازوں کو ڈبونا چاہتا تو انہيں ڈبو دیتا۔ اسی بنا پر یہ ایک جعلی منظر سازی ہے جو اس لئے تیار کیا گیا ہے کہ ایک بار پھر ایک کشیدگی کے اسباب فراہم ہوں اور ہم ایک جنگ میں الجھ جائیں۔
میک گریگور نے [متعدد افراد واشنگٹن کی طرف سے ایران روانہ کرنے کی طرف اشارہ نہ کرتے ہوئے] دعوی کیا کہ ایران امریکہ کے ساتھ بات چیت کا خواہاں ہے۔ صدر ٹرمپ حقائق کو جانتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انہیں بذات خود اقدام کرکے حالات کو پرسکون بنانا چاہئے۔
ان کا دعوی تھا کہ ایرانی شدت کے ساتھ کوشش کررہے ہیں کہ ثالثوں کے ذریعے ہمارے ساتھ بات چیت کریں میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں چاہیے بہت زیادہ شور واویلا مچانے کے بجائے خاموشی سے ایک ثالث ملک کے ذریعے ان کے ساتھ خفیہ بات چیت کریں۔ اور ان اختلافات کو حل کریں، لیکن کسی صورت میں بھی اس جنگ میں نہ الجھیں “جو مسلمانوں کی جنگ ہے اور ہماری جنگ نہیں ہے”۔
واضح رہے کہ امریکی ذرائع کے مطابق، صدر ٹرمپ ونزوئلا اور ایران کے سلسلے میں بولٹن کے اقدامات سے ناراض ہیں اور انہیں ہٹانے کی تیاری کررہے ہیں۔ بعض امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کرنل میک گریگور کو ـ جو ۱۹۹۰ میں عراق پر امریکی حملے کے زمانے کے مشہور فوجی افسروں میں شمار ہوتے ہیں، ـ بولٹن کی جگہ قومی سلامتی کا مشیر بنانا چاہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ معلوم نہیں کہ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ڈاگلس میک گریگور مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں امریکی اقدامات سے بے خبر ہوں؟ یا پھر کیا انھوں نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے گذشتہ چالیس سالوں کے عرصے میں اس علاقے میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کرنے کے سلسلے میں امریکی اقدامات کی طرف اشارہ کرنے کو ضروری نہیں سمجھا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ امریکی اور اسرائیلی جنگ ہے جس میں کچھ ممالک کو الجھایا گیا ہے تا کہ یہودی ریاست کا منحوس وجود محفوظ رہ سکے اور مسلمان آپس میں الجھے رہیں۔ کیا میک گریگور یا کوئی بھی امریکی حکمران یا چھوٹا بڑا امریکی سرکاری اہلکار بتا سکتا ہے کہ علاقے کے مسلمانوں کے درمیان یہ جنگ کس چیز پر ہے؟ کیا امریکی ہتھیاروں کی فروخت، یہودی ریاست کے تحفظ اور مسلمانوں کو ترقی اور پیشرفت سے روکنے اور مغرب کا دست نگر رکھنے کے سوا اس جنگ کا کوئی اور فائدہ بھی ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو یہ جنگ مسلمانوں کی جنگ کیونکر کہلائے گی؟
۲۔ اب جبکہ علاقے میں جنگ کی صورت میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بالکل عیاں ہے تو امریکی کہنے لگے ہیں کہ علاقے کے ممالک انہیں ایران کے خلاف جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں جبکہ عرصہ دراز سے امریکی علاقے کے مستبدّ عرب حکمرانوں کو ایران سے ڈراتے رہے ہیں تو اگر آج ان کی امید کی واحد کرن امریکہ ہے تو اس کی وجہ بھی خود امریکہ ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر ڈاگلس جی کی تجویز پر عمل کرکے امریکہ کے تجارت پیشہ صدر اپنی فوج کو خلیج فارس سے نکال دیں تو شاید عرب حکمرانوں کو بھی ہوش آئے اور امریکہ پر مزید انحصار کے بجائے ایران کے مخلصانہ پیشکش کو لبیک کہتے ہوئے عدم جارحیت کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے جس کے بعد شاید انہیں کبھی بھی اپنے ان لالچی آقاؤں کی ضرورت نہ پڑے جنہیں ان حکام کے خزانوں کے سوا ان کی زندگی اور امن و امان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔