بیت المقدس(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)2016ء سے مسئلہ فلسطین سے متعلق صدی کی ڈیل نامی امریکی منصوبے میں شامل مختلف شقوں کے بارے میں معلومات منظرعام پر آ رہی ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں فلسطینیوں کو خودمختار ریاست تشکیل دینے کا حق سلب کر لیا گیا ہے جبکہ بعض ماہرین یہ بھی کہتے آئے ہیں کہ مصر کے صحرائے سینا کا ایک حصہ فلسطینیوں سے مخصوص کر دیا جائے گا۔ گذشتہ تین برس کے دوران عرب دنیا میں اس منصوبے کے بارے میں چہ میگوئیاں جاری ہیں جس کا ابھی تک سرکاری سطح پر اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ اس دوران اس منصوبے میں شامل مختلف شقوں کے بارے میں معلومات منظرعام پر آنے کے باعث ابھی سے اس کی شدید مخالفت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
2017ء اور صدی کی ڈیل
صدی کی ڈیل کے بارے میں باتوں کا آغاز 2017ء میں امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا عہدہ صدارت سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد شروع ہو گیا۔ امریکی اخباروں نے اعلان کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2003ء میں اسرائیل کے سابق سربراہ یوشع بن آریہ کی جانب سے پیش کردہ ایک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس منصوبے میں اسرائیلی ریاست کو غزہ کی پٹی سے لے کر العریش تک وسعت دی گئی تھی۔ اسی طرح 2004ء میں گیورا آئی لینڈ کا منصوبہ بھی پیش ہوا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مصر اپنے علاقے صحرائے سینا میں 600 مربع کلومیٹر کا علاقہ فلسطینی مہاجرین کیلئے مخصوص کر دے اور اس کے عوض مصر کو صحرائے النقب کا 200 کلومیٹر مربع علاقہ اور بعض اقتصادی مراعات دے دی جائیں گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہی منصوبوں کو نئی شکل دے کر "صدی کی ڈیل” نامی ایک نیا منصوبہ پیش کر دیا۔ اگرچہ اس منصوبے کا سرکاری سطح پر اعلان نہیں کیا گیا لیکن وقتاً فوقتاً اسرائیلی اور امریکی ذرائع ابلاغ اس میں شامل شقوں سے متعلق محدود معلومات منظرعام پر لاتے رہے ہیں۔ مصر نے فلسطینی مہاجرین کیلئے علاقہ مخصوص کرنے کی کسی پیشکش کی تردید کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ "صدی کی ڈیل” نامی منصوبے کو نہیں مانتا۔
2018ء اور صدی کی ڈیل
2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے صدی کی ڈیل نامی منصوبے کو سرکاری سطح پر متعارف کروانے کیلئے چند سنجیدہ عملی اقدامات انجام دیے۔ ٹرمپ نے دسمبر 2017ء میں قدس شریف کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد مئی 2018ء میں اسے عملی شکل دیتے ہوئے اپنا سفارتخانہ قدس شریف منتقل کر دیا۔ دنیا والے 2018ء میں اس منصوبے کے منظرعام پر آنے کا انتظار کر رہے تھے لیکن ایک بار پھر سینچری ڈیل نامی منصوبے کو سرکاری طور پر متعارف کروانے کا کام موخر کر دیا گیا۔ لہذا اس منصوبے کی منظرعام پر آنے والی شقوں اور اسے سرکاری طور پر متعارف کروائے جانے کے وقت کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ منظرعام پر آنے والی شقوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ مسئلہ فلسطین سے متعلق پیش کئے گئے ماضی کے تمام منصوبوں سے مختلف ہے۔ گذشتہ منصوبوں میں دو ریاستی راہ حل پیش کیا جاتا رہا ہے جس کے تحت قدس شریف کی مرکزیت میں ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آنا تھا لیکن حالیہ منصوبے میں پوری مقبوضہ فلسطین کی سرزمین یہودی ریاست کو بخش دی گئی ہے۔
2018ء میں اس منصوبے کی صرف چار شقیں منظرعام پر آئی ہیں۔ ان شقوں سے مزید یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس منصوبے میں تمام عرب ممالک کے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات پر بھی زور دیا گیا ہے۔ یہ امر درحقیقت ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ اب تک غیر سرکاری ذرائع سے ان شقوں کو منظرعام پر لانے کا مقصد عرب حکمرانوں اور اسلامی دنیا کے ممکنہ ردعمل کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔ ان شقوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی پٹی کے صرف دو علاقوں اور مغربی کنارے کے بعض حصے فلسطینی ریاست سے مخصوص ہوں گے جبکہ اس ریاست کو مکمل خودمختاری بھی حاصل نہیں ہو گی اور وہ مسلح افواج سے بھی محروم ہو گی۔ اسی طرح اب تک منظرعام پر آنے والی معلومات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بعض عرب ممالک کو دسیوں ارب ڈالر کی امداد دی جائے گی تاکہ وہ غزہ کی پٹی میں ایئرپورٹ اور بندرگاہ تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں ہاوسنگ اسکیمز اور زراعتی شعبے میں سرمایہ کاری کر سکیں۔ قدس شریف کی حیثیت اور جلاوطن فلسطینیوں کی وطن واپسی کو آئندہ مذاکرات تک موکول کر دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت فلسطین کے حتمی امن مذاکرات سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان منعقد کئے جائیں گے۔
2019ء اور صدی کی ڈیل
7 مئی 2019ء کو جب سینچری ڈیل کی بعض اہم شقیں منظرعام پر آئیں تو عرب دنیا چونک گئی۔ ان شقوں میں گذشتہ منظرعام پر آنے والی شقوں کی مزید وضاحت شامل تھی۔ بعض ماہرین ان معلومات کے منظرعام پر آنے کو اس منصوبے کے حتمی اور سرکاری اعلان کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ ان نئی سامنے آنے والی شقوں میں کہا گیا ہے کہ "جدید فلسطینی ریاست” نامی ایک فلسطینیوں کی ایک ریاست قائم کی جائے گی جو غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر مشتمل ہو گی۔ اس میں یہودی بستیوں والی سرزمین شامل نہیں ہو گی۔ قدس شریف کو تقسیم نہیں کیا جائے گا اور یہ نئی فلسطینی ریاست اور اسرائیل کا مشترکہ دارالحکومت ہو گا۔ فلسطینیوں کو یہودیوں کے مکان خریدنے کا حق حاصل نہیں ہو گا جبکہ یہودی بھی فلسطینیوں کے مکان نہیں خرید سکیں گے۔ نئی فلسطینی ریاست کو غزہ کی پٹی کے قریب مصر کا کچھ علاقہ دیا جائے گا جہاں وہ ایئرپورٹ، کارخانے اور زراعتی زمینیں قائم کر سکیں گے۔ ان زمینوں کا رقبہ اور قیمت ثالثی کرنے والے ممالک طے کریں گے۔ ثالثی کرنے والے ممالک میں امریکہ، یورپی یونین کے رکن ممالک اور خلیجی عرب ریاستیں شامل ہوں گی۔
صدی کی ڈیل سے متعلق نئی سامنے آنے والی شقوں کے مطابق نئی فلسطینی ریاست مسلح افواج سے محروم ہو گی۔ صرف پولیس افسران ہی ہلکے ہتھیار پاس رکھ سکیں گے۔ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس معاہدہ طے پا جانے کے بعد اپنے تمام ہتھیار ثالثی کرنے والے ممالک کے سپرد کر دیں گے۔ اسی طرح یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سینچری ڈیل کی رو سے اردن کا درہ اسرائیلی ریاست کا حصہ بن جائے گا۔ مزید برآں، جدید فلسطینی ریاست اور اسرائیل کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ بھی طے پائے گا جس کی رو سے کسی قسم کی بیرونی جارحیت کی صورت میں جدید فلسطینی ریاست کے دفاع کی ذمہ داری اسرائیل کے پاس ہو گی۔ دوسری طرف جدید فلسطینی ریاست کو اس دفاع کے اخراجات اور قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ مندرجہ بالا شقوں کے منظرعام پر آنے کے باوجود سینچری ڈیل تاحال سرکاری طور پر متعارف نہیں کروائی گئی۔ اگرچہ میڈیا پر اس بارے میں کافی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں لیکن اس منصوبے کے سرکاری طور پر سامنے آنے کا وقت مقرر نہیں کیا گیا اور اس بارے میں ابہامات پائے جاتے ہیں۔
تحریر: علی احمدی