بیت المقدس(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)قرآن کریم دین اسلام کی مقدس اور آخری نبی پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب ہے۔ واضح ہے کہ اس میں اسلامی تعلیمات یعنی عقائد، احکام اور اخلاق کو بیان کیا جانا چاہیے تھا نہ کہ تاریخ بنی اسرائیل کو، تو یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اسلام کی آسمانی کتاب اس حد تک بنی اسرائیل کا تذکرہ کرتی ہے؟
روزنامہ قدس قرآن کریم انسان کے لیے ایسی کتاب ہدایت ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق گفتگو کی ہے اور اس کے لیے ہدایت کے راستے کھولے ہیں۔ ان گوشوں میں سے ایک انسان کی سماجی اور سیاسی زندگی ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نے کچھ خاص اصول و قوانین پیش کئے ہیں اور ان اصول و قوانین کو توحیدی نظام پر قائم کیا ہے۔ قرآن کریم نے سیاسی و سماجی زندگی کے لیے جو نظام ہدایت پیش کیا ہے اس کا ایک اہم حصہ دشمن شناسی اور دشمنی کے مقابلے میں مزاحمتی آئیڈیالوجی کا انتخاب ہے۔
ایران کا اسلامی انقلاب، اسلام کے کچھ خاص اصولوں پر قائم ہے جن کی بنا پر وہ دین کو انسان کی انفرادی زندگی میں منحصر نہیں کرتا بلکہ سیاست اور معاشرے کو دینی دستورات کے لازم الاجراء ہونے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت دیتا ہے۔ اسلامی انقلاب ایسے حالات میں کامیابی سے ہمکنار ہوا کہ دین بطور کلی سیاسی میدان سے حذف ہو چکا تھا اور اسے انسانی حیات کی خلوتوں اور گوشہ نشینیوں سے مخصوص کر دیا گیا تھا۔ سیاسی نظریات اور سماجی نظام میں اس کا کوئی مقام اور اثر نظر نہیں آتا تھا۔ ان حالات و شرائط میں اسلامی انقلاب دینی قیادت کے ذریعے اور دینی افکار و اصولوں کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور اپنی کامیابی کے ساتھ عالم سیاست و سماجیت کے اہل نظر افراد کو انگشت بہ دنداں کر دیا تاکہ وہ ایک مرتبہ پھر اپنے افکار اور نظریات میں تجدید نظر کریں۔
اسلامی انقلاب کا ایک اہم ترین نتیجہ اور ماحاصل مزاحمت کے نظریہ کی ترویج ہے جو مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ اسلامی دشمنوں کے مقابلے میں استقامت کے لیے یکجہتی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس نظریہ کا سب سے بڑا ماحصل اسلامی انقلاب کا صہیونی مخالف موقف ہے کہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کو اسلامی مزاحمتی گروہوں کی حمایت اور صہیونی رژیم کی مخالفت کی طرف حرکت دیتا ہے۔
صہیونیت سے مقابلے کا نظریہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی رہبران انقلاب کی جانب سے وجود میں آیا۔ امام خمینی نے ۱۹۶۳ میں ایران کی شہنشاہی حکومت کے خلاف جدوجہد کے دوران ہی اسرائیل کے خلاف مجاہدت کا بھی آغاز کر لیا تھا۔ اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ امام خمینی نے فرمایا کہ “اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہیے”۔ نیز امام خمینی نے ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کا نام دے کر اس فکر کو پورے عالم اسلام میں پھیلا دیا اور یہ دن “عالمی یوم القدس” کے نام سے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے اور پوری دنیا کے لوگ مسلمان اور غیر مسلمان اس دن سڑکوں پر نکل کر فلسطین کی حمایت میں نعرے لگاتے ہیں۔
امام خمینی کے اس اقدام نے در حقیقت عالم اسلام کو یہ باور کروا دیا کہ صہیونی ریاست کے ساتھ مقابلہ عالم اسلام کا پہلا مسئلہ ہے اور اس میں کسی مذہب، فرقے، زبان یا علاقے کی کوئی قید نہیں ہے۔ بعد ازآں یہ پالیسی اور یہ موقف انقلاب اسلامی کے تمام رہبروں اور رہنماوں کا شعار رہا ہے۔
یہاں پر جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ نظریہ اور آئیڈیالوجی انقلاب اسلامی کی فکر ہے یا اس کے پیچھے دینی اور قرآنی اصول بھی حاکمفرما ہیں۔
یہ سوال اس اعتبار سے اہم ہے کہ اسلامی انقلاب مذہبی اور قومی اقلیت کے اندر پایا جاتا ہے اور اس کے افکار کی عالم اسلام میں نشر و اشاعت کی راہ میں یہ رکاوٹ پائی جاتی ہے کہ یہ افکار ایرانی انقلاب کی تخلیق ہیں اور عالم اسلام کو ان افکار کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسئلہ فلسطین اور مزاحمتی تحریک بھی انہی مسائل اور افکار کا حصہ ہیں خاص طور پر جب عالم اسلام کے بعض افراد مسئلہ فلسطین کو ایک عربی مسئلہ اور اہل سنت سے متعلق گردانتے ہیں نہ کہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ۔
انقلاب اور رہبران انقلاب کے افکار کے اصولوں پر غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ صہیونی ریاست کے ساتھ مقابلے میں مسئلہ فلسطین اور مزاحمتی تحریک قرانی اصول میں سے ایک اصل ہے اور واضح ہے کہ قرآن کریم تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک ایک مشترکہ کتاب ہے کسی ایک قوم و قبیلہ سے مخصوص نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر ہم بنی اسرائیل اور صہیونیت کی قرآن کریم جو مسلمانوں کو بیداری، مجاہدت اور مقاومت کی دعوت دیتا ہے کی نگاہ سے تصویر کشی کرنا چاہیں اس وقت مزاحمتی تحریک کا نظریہ اسلامی انقلاب کی آئیڈیالوجی نہیں بلکہ مکمل طور پر ایک قرانی نظریہ ثابت ہو گا کہ تمام مسلمان اس میں مشترک اور سہیم ہیں۔
خداوند عالم قرآن کریم میں انبیائے الہی کی تاریخ اور ان کا اپنی قوموں کے ساتھ برتاؤ بیان کرتا ہے یہاں تک کہ بہت سارے سوروں کے نام ہی انبیاء کے ناموں پر رکھے گئے ہیں جیسے یونس، ہود، یوسف، ابراہیم ، لقمان، محمد، نوح، اور ایک سورہ خود انبیاء کے نام سے ہے۔ لیکن قرآن کریم کی زیادہ تر توجہ بنی اسرائیل کی تاریخ پر ہے اور قرآن کریم کا کوئی سورہ “موسی” کے نام سے ہوتا تو قرآن کا سب سے بڑا سورہ ہوتا اس لیے اس قدر اللہ نے جناب موسی اور بنی اسرائیل کے قصے کا قران کریم میں تذکرہ کیا ہے۔
قرآن کریم دین اسلام کی مقدس اور آخری نبی پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب ہے۔ واضح ہے کہ اس میں اسلامی تعلیمات یعنی عقائد، احکام اور اخلاق کو بیان کیا جانا چاہیے تھا نہ کہ تاریخ بنی اسرائیل کو، تو یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اسلام کی آسمانی کتاب اس حد تک بنی اسرائیل کا تذکرہ کرتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ بنی اسرائیل کی قرآن میں مجموعی تصویر منفی ہے اور خداوند عالم انہیں ان الفاظ سے یاد کرتا ہے؛ ناشکری قوم، نافرمان قوم، بہانہ جو، پیغمبروں کی قاتل کہ جو خداوند عالم اور اس کی نمائندوں کی ناراضگی کا سبب بنی ہے۔ قرآن کریم میں بنی اسرائیل کی تاریخ کا تذکرہ در حقیقت اس عنوان سے ہے کہ “ادب کس سے سیکھا؟ بے ادبوں سے”، تاکہ ہم ان سے عبرت حاصل کریں اور ان کے راستے پر نہ چلیں تاکہ خداوند عالم کے غیض و غضب میں گرفتار نہ ہوں۔
۲۔ بنی اسرائیل جو انبیاء کے قاتل معروف ہیں اور انہوں نے جناب صالح اور حضرت عیسی جیسے بزرگ انبیاء کو قتل کیا یا قتل کرنے کی کوشش کی اور آخری پیغمبر کے قتل کے منصوبے بھی بنائے اور ان کے دین کو مٹانے کے لیے کوئی لمحہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ قرآن کریم بنی اسرائیل کا تذکرہ اس لیے کرتا ہے تاکہ مسلمان اپنے دشمنوں کو اچھے سے پہچانیں، اور ان کے مقابلے کے لیے بہترین تدبیریں تلاش کر سکیں اس لیے قرآن نے یہود کی دشمنی کو سخترین اور بدترین دشمنی قرار دیا ہے۔ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ …(مائدہ ۸۲)(آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں) اور بنی اسرائیل جو کرہ زمین پر فساد کا مرکز ہیں کے ساتھ جہاد کو مومنین کے لیے باعث فخر قرار دیا ہے:
وَقَضَینا إِلی بَنِی إِسْرائِیلَ فِی الْکتابِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْأَرضِ مَرَّتَینِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کبِیراً فَإِذا جاءَ وَعْدُ أُولاهُما بَعَثْنا عَلَیکمْ عِباداً لَنا أُولِی بَأْسٍ شَدِیدٍ فَجاسُوا خِلالَ الدِّیارِ وَکانَ وَعْداً مَفْعُولاً (اسرا ۴، ۵)
(اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ اطلاع دے دی تھی کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد کرو گے اور خوب بلندی حاصل کرو گے، اس کے بعد جب پہلے وعدے کا وقت آگیا تو ہم نے تمہارے اوپر اپنے بندوں کو مسلط کر دیا جو بہت سخت قسم کے جنگجو تھے اور انہوں نے تمہارے دیار میں چن چن کر تمہیں مارا اور یہ ہمارا ہونے والا وعدہ تھا۔)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں ان آیات کا واضح مصداق کون اور کہاں ہے؟ اگر ہم اپنے اطراف و اکناف میں معمولی غور و فکر کے ساتھ بھی نظر ڈالیں گے تو ہمیں عالمی صہیونیت اور قدس کی غاصب رژیم قرآن کریم کی ان آیات کی واضح مصداق دکھائی دے گی۔ لہذا ایسے موقع پر مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انتہائی ہوشیاری کےساتھ اس رژیم کا مقابلہ کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اس کا مقابلہ قرآنی زاویہ نگاہ سے جہاد فی سبیل اللہ کا مصداق ہے۔
اب یہ واضح ہوا کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو امام خمینی (رہ) نے کیوں یوم قدس کا نام دیا تاکہ ماہ مبارک جو اللہ کی عبادت اور بندگی کا سب سے بڑا مہینہ ہے اس مہینے میں راہ خدا میں جہاد کرنا اور دشمن کے سامنے اپنی طاقت کا لوہا منوانا اور سڑکوں پر نکل کر روزے کی زبان سے اسرائیل مردہ باد اور امریکہ مردہ باد کے نعرے لگا کر دشمن کی نابودی کی دعا کرنا اور یہ ثابت کرنا کہ ہم تیرے ظلم کے آگے دبنے والی قوم نہیں ہیں بلکہ اپنے خون کے آخری قطرے تک قبلہ اول کی نجات کے لیے لڑنے کو تیار ہیں، اس مہینے کے عظیم مناسک اور اعمال کا حصہ ہیں۔