رام اللہ(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)ماہ صیام کے آتے ہی فلسطینی شہریوں کے دکھوں میں ایک اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہزاروں فلسطینی صہیونی زندانوں میں قید ہونے کے باعث ماہ صیام اور عید پر اپنے پیاروں سے دور ہوتے ہیں۔
انہی میں ایک اسیر عباس السید ہیں جو مسلسل 18 سال سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ افطار دسترخوان پر شریک نہیں ہوسکے۔ وہ مسلسل صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں اور انہیں 35 بار عمر قید اور 100 سال اضافی قید کی سزا کا سامنا ہے۔ اسیر عباس السید کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک لمحہ اذیت اور تکلیف میں بسر کرتی ہیں۔ 18 سال بیت گئے ہیں مگر وہ رمضان دسترخوان پر ایک ساتھ روزہ افطار نہیں کرسکے تاہم انہوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
مسلسل اسیری کے 18 سال
اسیر عباس السید کی اہلیہ اخلاص الصویص المعروف ام عبداللہ نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے ان کے شوہرکو 8 مارچ 2002ء کو حراست میں لیا۔ ان کی گرفتاری اور اب تک اسیری کے اٹھارہ سال میری زندگی کا انتہائی کٹھن اور مشکل مرحلہ ہے۔ جدائی کے سترہ سال کے بعد اب ہم 18 ویں سال میں داخل ہوگئے ہیں۔
"حریہ نیوز” سے بات کرتے ہوئے ام عبداللہ نے کہا کہ یہ تو سب جانتے ہیں کہ 17 سال کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا۔ ہم مسلسل اس انتظار میں ہے کہ السید کی اسیری کا غم مزید کتنا عرصہ جھیلیں گے۔ کیا انہیں کبھی رہائی نصیب ہوگی۔ مگر میں اللہ سے مایوس نہیں بلکہ ہر نئے سال ایک نئی امید کے ساتھ اپنی زندگی شروع کرتی ہوں۔
ماہ صیام میں عباس السید کی عدم موجودگی کے اٹھارہ سال کے بارے میں ام عبداللہ نے کہا کہ ماہ صیام میں ہم افطاری کے وقت بہت صدمے سے ہوتے ہیں۔ مگر ہر افطاری اور نماز میں ہم عباس السید اور صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل اسیران کی رہائی کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ فلسطینی مجاھدین اپنے اسیر بھائیوں کی رہائی کے لیے ‘وفاء احرار’ طرز کے معاہدے کرتے اور اسرائیل کو فلسطینی اسیران کو رہا کرنے پر مجبورکرتے رہیں گے۔
عباس السید کی گرفتاری کا سلسلہ
عباس السید اور ام عبداللہ سنہ 1993ء کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ اس کے بعد سے ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ شادہ کے صرف دوماہ بعد ہی انہیں حراست میں لے لیا گیا اور 11 ماہ کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی۔ چھ ماہ بعد انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور 9 ماہ پابند سلاسل رہے۔ اس دوران ان کی اہلیہ نے ایک بیٹی مودہ اور اس کے بعد بیٹے عبداللہ کو جنم دیا۔
اسرائیلی جیل سے رہائی کے کچھ عرصہ بعد فلسطینی اتھارٹی نے انہیں حراست میں لے لیا۔
ام عبداللہ کا کہنا ہے کہ عباس السید گرفتاری سے ایک دن قبل مجھے گرفتار کیا گیا اور عقوبت خانے میں وحشیانہ تشدد کے ذریعے مجھے کہا گیا کہ جب تک آپ کا شوہرگرفتاری نہیں دیتا اس وقت تک تشدد جاری رہے گا۔ اگلے روز صہیونی فوج نے 8 مئی کو ہمارے گھر پر چھاپہ مار کر وہاں سے میرے شوہر کو حراست میں لے لیا۔
فلسطینی امور اسیران کے مطابق عباس السید کا تعلق غرب اردن کے شمالی شہر طولکرم سے ہے اور وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ 18 سال سے افطار ڈنر میں شریک ہونے سےمحروم ہیں۔
جہاد اور مزاحمت
اسیر عباس السید پر ‘باراک ہوٹل’ میں فدائی حملہ آور عبدالباس عودہ کے حملے میں معاونت کا الزام عاید کیا گی۔ ان پر 32 یہودیوں کو ہلاک اور 150 کو زخمی کرنے کا مقدمہ چلایا گیا۔ اس کے علاوہ ان پر ھشارون فدائی حملے میں معاونت کا بھی الزام عاید کیا گیا جس میں پانچ اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کے الزام میں انہیں 35 سال عمر قید اور 100 سال اضافی قید کی سزا سنائی گئی۔