یروشلم(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ)پوری دنیا میں فوج ملکوں کی حفاظت اور ان کی سرحدوں کے تحفظ کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے فوج کی سیاسی امور میں نہ دخل اندازی ہوتی ہے اور نہ ہی مختلف حکومتوں میں ان کا نفوذ ہوتا ہے۔
لیکن صہیونی ریاست میں کچھ صورتحال دوسری ہے، اس لیے کہ اس ریاست پر حاکم نظام عسکریت پسند اور فوجی نظام ہے حتیٰ کہ اس کے سیاستدان بھی فوجی سبکدوش افراد میں سے منتخب کئے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے فوج کی طرف خاص توجہ سیاستدانوں کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس چیز کے باوجود اسرائیل کے فوجی ڈھانچے پر غور کرنے سے اس کے حالات کچھ مناسب اور سازگار نظر نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا ایران پر حملے کا دعویٰ ایک قسم کا کھوکھلا دعویٰ ہے۔
ریٹائرڈ فوجی افسر “اسحاق بریک” نے سن ۲۰۱۷ میں کسی ممکنہ جنگ میں فوج کی آمادگی کو نامطلوب اور حتیٰ کہ ناممکن قرار دیا اور اپنی رپورٹ میں فوج کے اندر پائی جانے والی ۶ کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا:
۔ جنگی ساز و سامان کا آمادہ نہ ہونا
۔ مشقوں کی نامطلوب کیفیت
۔ جنگ کی نسبت بے رغبتی
۔ فوج کی تعداد میں کمی
۔ شکایتوں کے حجم میں اضافہ
۔ وہ ڈاکٹر اور دیگر گروہ جو فوج سے نکلنا چاہتے ہیں (۱)
یہ ایسے حال میں ہے کہ اسرائیل کے چیف اسٹاف جنرل “گاڈی آیزنکوٹ” نے “بریک” کے بیانات کو غلط قرار دیا اور اعلان کیا کہ اسرائیلی فوج جنگ کی تمام تر صلاحیتوں کی حامل ہے۔ دو افسروں کے متناقض بیانات اس بات کا باعث بنے کہ اسرائیلی فوج کے اعلیٰ نگران “ایلان ہراری” نے ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے کر فوج کی صلاحیتوں کے بارے میں تحقیق کا آغاز کیا۔ ان تحقیقات کا نتیجہ یہ بتایا گیا کہ ۳۳ روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیلی فوج کی حالت نامناسب ہے۔
سپاہیوں کا سروس سے فرار
اسرائیلی فوج مختلف قسم کی مشکلات سے دوچار ہے ان مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ اسرائیلی نوجوان فوج میں سروس کرنے سے بھاگتے ہیں حتیٰ کہ فوج میں بھرتی اسرائیلی جوان نوکری چھوڑ کر فرار کر جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال عبرانی زبان کے ایک اخبار نے خبر دی کہ اسرائیل کے ۱۱ سپاہی فوجی مشقوں کے درمیان سے بھاگ گئے اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ فوجیوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور ان کی مالی مشکلات کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاتا۔ اور حتیٰ اس سے بھی بالاتر ستم یہ ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کی ابتدائی ضروریات حتیٰ مناسب غذا بھی فراہم نہیں کی جاتی۔ (۲)
فوجیوں کی خود کشی کا مسئلہ
ایک دوسرا اہم مسئلہ جو اسرائیلی فوج کے دامنگیر ہے وہ سپاہیوں کی خود کشی یا جان بوجھ کر خود کو زخمی کرنا ہے۔ بعض صہیونی ذرائع ابلاغ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ بعض سپاہی جنگ میں شرکت نہ کرنے کی غرض سے خودکشی کا ارتکاب کر لیتے ہیں یا خود کو زخمی کر دیتے ہیں اور نفسیاتی حالات اس قدر بحران کا شکار ہیں کہ ۵۴ فیصد فوجی اپنی نفسیاتی تسکین کے لیے ہیروین کا استعمال کرتے ہیں۔ (۳)
اسرائیل میں آبادی کی کمی، مہاجرین کی اسرائیل سے واپسی اور پھر جنگی صورتحال جو ہمیشہ رہتی ہے ایسے مسائل ہیں جن کی بنا پر اسرائیل کو ایسی فوج کی ضرورت ہے جو ہمیشہ خدمت رسانی کے لیے تیار رہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں اخبار “یدیعوت احارونوت” نے ۲۰۱۷ میں لکھا کہ اسرائیل میں ۶۷ فیصد یونٹس میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ حتیٰ بعض فوجی ذرائع کے مطابق ۲۰۰۴ میں ۷۷ فیصد سپاہی مرد تھے لیکن ۲۰۱۶ میں یہ تعداد کم ہو کر ۷۲ فیصد ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین سے ایک چوتھائی فوجی مرد فوج سے فرار کر گئے ہیں۔ (۴)
فوجی نقائص کو برطرف کرنا
اسرائیل کے فوجی سسٹم میں پائی جانے والی بحرانی کیفیت کے باوجود، اس کے عہدہ داروں نے بعض نقائص کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے تین امور پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے:
۔ فوج میں سروس کرنے والے نوجوانوں کو تعلیم جاری رکھنے کے لیے اسکالر شپ کی سہولت
۔ تنخواہوں میں اضافہ اور سروس کی مدت میں کمی
۔ خواتین کی فوج میں زبردستی بھرتی، دوسرے لفظوں میں اسرائیل میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے فوج میں بھرتی کا قانون مساوی کر دیا گیا۔
فوج میں جنسی خدمات رسانی کے لیے لڑکیوں کی بھرتی
صہیونی ریاست کے بعض اعلیٰ فوجی افسروں کا کہنا ہے کہ فوج میں لڑکیوں کی موجودگی مرد سپاہیوں کے جذبات بڑھانے میں مدد کرتی ہے اور ان سے جنسی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔(۵) یہاں تک کہ بعض رپورٹوں میں آیا ہے کہ سپاہی لڑکیاں غزہ پر جنگ کے دوران اپنی فوج کے جذبات بڑھانے کے لیے خود کو برہنہ کر دیتی ہیں۔ (۶)
اسرائیلی فوج سے عوام کی نفرت کی وجہ
یہ وہ مشکلات ہیں اسرائیلی فوج جن کے روبرو ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی چیز باعث بنی ہے کہ اسرائیلی نوجوان اور جوان فوج میں بھرتی ہونے اور سروس کرنے سے بے زار ہو جائیں؟
پہلی وجہ؛ فوج کا ہمیشہ جنگی حالت میں رہنا ہے؛ اس طریقے سے کہ جو نوجوان اسرائیلی فوج میں بھرتی ہوتے ہیں وہ تقریبا چھٹی سے محروم ہو جاتے ہیں یا انہیں بہت کم ٹائم کے لیے چھٹی ملتی ہے۔
دوسری وجہ؛ اپنے سیاسی رہنماوں کی نسبت بے اعتمادی ہے؛ چونکہ ان کا سیاست کے میدان میں طرز عمل ایسا ہے کہ گویا اسرائیل کے حالات کو بہتر بنانے اور جنگ کو خاتمہ دینے کے لیے کوئی تلاش و کوشش نہیں کرتے۔ گویا یہ ایسی جنگ ہے جس کا کوئی انجام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہمیشہ ان کے سر پر موت کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے کب کہاں سے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کا گولا ان کے سر پر آن پڑے اور وہ موت کی آغوش میں چلے جائیں۔
نتیجہ کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اپنی گیدڑ بھبھکیوں کے برخلاف اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ جنگ کی توانائی نہیں رکھتا اور ان کے سیاسی عہدیداروں کے ایران مخالف بیانات صرف سیاسی کھیل ہے جو صرف اپنے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کھیلا جاتا ہے۔ (۷)