غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) ماہ صیام کی آمد آمد ہے اور فلسطین کےعلاقے غزہ کے عوام ایک بار پھر غربت اور سنگین معاشی مسائل کے ہاتھوں مجبور اور بے بس ہیں۔
غزہ میں ایسے خاندانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جن کے پاس بنیادی تعلیم، صحت اور گھریلو ضروریات کی تکمیل کا کوئی وسیلہ نہیں اور وہ انتہائی غربت اور کسمپرسی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
فلسطین کے سرکاری ادارہ شماریات کے مطابق گذشتہ دو سال کے دوران غزہ کی نصف آبادی غربت کا شکار ہوئی۔ سابقہ رپورٹس کے مطابق سنہ 2007ء کے بعد غزہ میں غربت کا تناسب 53 فی صد تک جا پہنچا۔ گزشتہ دو سال سے غزہ میں کسی قسم کا پیداواری کام نہیں ہوسکا اور مقامی مارکیٹیں اور کاروباری مرکز بد ترین مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ روز گار نے مواقع ناپید ہیں اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف سےعاید کردہ پابندیوں نے عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔
عوام کی فریاد
غزہ کے مشرقی علاقے الشجاعیہ کے رہائشی ایک فلسطینی خاندان نے مرکز اطلاعات فلسطین کے توسط سے اپنی زبوں حالی کی کتھا بیان کی۔ فلسطینی خاندان کی 47 سالہ ام سعید (فرضی نام) نے کہا کہ دنیا اور اہل خیر نے ہمارے بچوں سے نظریں پھیر لی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرے 12 بچے ہیں اور ہم سب 100 میٹر کے گھر میں رہتے ہیں۔ سات بچے اور پانچ بچیاں ہیں اور ان میں سے چار یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا گھر دو کمروں، ایک باورچی خانہ اور لوہے کی چھت پر مشتمل ہے اور یہ مکان 30 سال پہلے کا بنا ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم بچے فیس نہیں دے پاتے اور انہیں فیس کی عدم ادائیگی کے باعث جامعات سے نکالے جانے کی دھمکیوں کا سامنا ہے۔ مصیبت زدہ فلسطینی ماں کا کہنا ہے کہ بچے روزانہ پیدل یونیورسٹی آتے جاتے ہیں۔ وہ نہ فیس ادا کر پاتے ہیں اور نہ دیگر تعلیمی ضروریات پورے ہوسکتی ہیں۔ ماہ صیام کی آمد آمد ہے۔ ہم سب رمضان میں افطار وسحر کے حوالے سے پریشان ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ام السعید کا کہنا تھا کہ وہ بچوں کی یونیورسٹی کی تعلیمی ضروریات پوری نہ کر پانے پر شرمندہ ہیں۔ غربت کی وجہ سے ہم گھر پر ٹی وی تک نہیں لگا سکے ہیں۔
اگرچہ یہ الفاظ ایک فلسطینی خاتون کے ہیں مگر امر واقعہ یہ ہے کہ یہ الفاظ کسی ایک فلسطینی خاتون کے نہیں بلکہ یہ ہزاروں فلسطینی خاندانوں کا اجتماعی المیہ ہے۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)