غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) غزہ کی پٹی میں موجود گیس کے ذخائر کے بارے میں اطلاعات پہلے بھی آتی رہی ہیں۔ حال ہی میں قطر سے نشریات پیش کرنے والے ’’الجزیرہ‘‘ چینل نے ایک رپورٹ نشر کی جس میں مصدقہ ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی کس طرح غزہ کے گیس کے ذخائر نکالنے اور اسرائیل کو فروخت کرنے کے لیے مشکوک معاہدے کر رہی ہے۔
الجزیرہ ٹی وی چینل کے پروگرام ’’مخفی خزانے‘‘ میں بتایا گیا ہےکہ دو عشرے پیشتر غزہ میں گیس کے ذخائر کا پتا چلا۔ اس وقت فلسطینی اتھارٹی کی قیادت یاسر عرفات کے ہاتھ میں تھی۔ یاسرعرفات نے غزہ میں گیس کے ذخائرکو ’’عطیہ خداوندی‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے بتایاتھا کہ فلسطینی اتھارٹی کس طرح گیس کے قدرتی ذخیرے اور اس کے ذریعے توانائی کاحصول ممکن بنا سکتی ہے۔
قطری ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ماہرین نے کہا کہ غزہ کے گیس کے ذخائرکو سالانہ ساڑھے چار ارب ڈالر کا زر مبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔
قطری ٹی وی چینل کے محقق اور صحافی تامر المسحال نے غزہ میں گیس کے ذخائر اور اسے اسرائیل کو فروخت کرنے کی فلسطینی اتھارٹی کی سہولت کاری کے بارے میں ٹھوس ثبوت فراہم کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کے ساحل کے قریب سے ملنے والے گیس کے ذخائر کے حصول میں زیادہ قیمت نہیں لگے گی بلکہ یہ گیس آسانی کےساتھ حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر گیس کے یہ ذخائر حاصل ہوجاتے ہیں تو اہل فلسطین کے معاشی مسائل اور پریشانیاں دور ہوسکتی ہیں۔ فلسطین کے وہ عوام جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے دن بدل سکتے ہیں اور پڑوسی ملکوں کو گیس کی صورت میں ایک نئی سہولت مل سکتی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہےکہ فلسطینی اتھارٹی نے سنہ 1996ء کو انجینیر اسماعیل المسحال جرمنی کی ’’جے ایف ای‘‘ اور برطانیہ کی ’’روبرٹسن‘‘ کے ساتھ گیس کی تلاش اور اس کے حصول کے لیے مذاکرات کی اجازت دی تھی۔ بعد ازاں برطانیہ کی برٹش گیس کو غزہ میں گیس کے ساتھ غزہ کے گیس کے ذخائر کا ایک معاہدہ طے پایا۔ اس کمپنی کے ساتھ مذاکرات کا ایک دور انجینیر اسماعیل المسحال اور دوسرا یاسرعرفات کے مشیر محمد رشید المعروف خالد سلام کے ذریعے ہوا۔
خالد سلام اس وقت ابو ظبی میں ہیں اور وہ تحریک فتح کے منحرف لیڈر محمد دحلان کے قریبی ساتھی ہیں اور وہ موجودہ فلسطینی اتھارٹی سے الگ ہوچکے ہیں۔ وہ فلسطینی اتھارٹی پر اور فلسطینی اتھارٹی ان پر منی لانڈرنگ اور کرپشن کا الزام عائد کرتے ہیں۔
اسرائیل کا کردار
تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور برٹش گیس کمپنی کے درمیان غزہ کے گیس کے ذخائر کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات میں اسرائیل کہیں دکھائی نہیں دیا مگر جب سے کمپنی نے غزہ میں گیس کی تلاش کے لیےکھدائیوں کا سلسلہ شروع کیا اس وقت سے اسرائیل اس میں پیش پیش ہے۔
برٹش کمپنی نے گیس کے معاہدے کے بارے میں معاہدہ کرتے ہوئے کہا کہ گیس کےتمام وسائل فلسطین استعمال نہیں کرے گا بلکہ اسے بیرون ملک منتقل کیا جائے گا۔
اس حوالے سے فلسطینی توانائی کے وزیر عزام الشواء نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ یہ مذاکرات دوسری تحریک انتفاضہ کے دور میں ہوئے۔ معاہدے میں طے پایا کہ غزہ سے اسرائیل کو گیس فراہم کی جائے گی اور اس کے بدلے میں اسرائیل فلسطینی علاقوں کو بجلی مہیا کرے گا۔ غزہ کی پٹی کے قریب اسرائیل ایک بجلی گھر بنائے گا جہاں سے غزہ کو بجلی کی ترسیل کی جاسکے گی۔ یہ معاہدہ سابق اسرائیلی وزیراعظم ارئیل شیرون کے ساتھ کیا گیا تھا۔
قطری ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت غزہ میں گیس ذخائر کی تلاش اور اس کی درآمد، اس سے حاصل ہونے والامنافع اور گیس کی فروخت سب کچھ اسرائیل کر رہا ہے۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)