غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) سیکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ فلسطین نیشنل اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں نے بین الاقوامی سرمایہ کو بروئے کار لاتے ہوئے غزہ اور اس کی حکمران جماعت کو مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر نشانہ بنانے کا پلان تیار کیا ہے۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ان ذرائع نے مزاحمت کی آواز ’’الاقصیٰ‘‘ نیوز چینل کو بتایا کہ غزہ اور حماس کے خلاف اس سیکیورٹی اور ابلاغی منصوبہ کی نگرانی اعلیٰ قیادت کر رہی ہے، جن میں حکمران جماعت ’’فتح‘‘ کی مرکزی کونسل کے ارکان بھی شامل ہیں۔
حماس کے خلاف منصوبہ کا آغاز سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کیا گیا ہے اور بعد ازاں اسے بڑھاوا دیتے ہوئے فیلڈ میں تنظیم کے خلاف اقدامات تک پھیلا دیا جائے گا۔ اس منصوبہ کی تکیمل چار مراحل میں ہو گی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اور ابلاغی منصوبہ کا مقصد حماس اور تنظیم آزادی فلسطین ’’پی ایل او‘‘ کی رکن جماعتوں کے درمیان تعلقات کو پراگندہ کرنا ہے۔
غزہ کی پٹی میں محدود پیمانے پر ’’ہم جینا چاہتے ہیں‘‘ نامی تحریک کے پرچم تلے مہنگائی کے خلاف جلسے جلوس نکالے گئے، تاہم ذرائع نے بتایا کہ فتح اور فلسطین نیشنل اتھارٹی نے ان مٹھی بھر عناصر کی ریلیوں کو اپنے سیاسی مقاصد کی تکیمل کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔
غزہ میں عوامی مسائل کو بنیاد بنا کر نکالی جانے والی ریلیوں کی انتظامیہ کے بارے میں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے ڈور غزہ کے باہر سے نادیدہ مگر معلوم قوتیں ہلا رہی ہیں۔ یہ مقامی لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ مطلب براری کے لئے فتح یا فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے ہمنوا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو غزہ میں حماس کے خلاف استعمال کر رہے ہیں تاکہ وہاں حکومت کو گرایا جا سکے۔
فتح تحریک کی انقلابی کونسل کے رکن اسامہ القواسمی نے غزہ میں عوامی مظاہروں کو حماس کے خلاف سپورٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ سرکاری ٹی وی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’القدس کی آزادی کا راستہ غزہ میں ظلم اور استبداد کے خاتمے کی راہ سے ہو کر گذرتا ہے۔‘‘
ادھر اسرائیلی عہدیداروں نے غزہ میں نام نہاد عوامی مظاہروں کی انتظامیہ اور تحریک کو حماس کے خلاف تمام تر تعاون اور مدد فراہمی کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ان میں اسرائیلی وزیر کے ترجمان اوفر جندلمان اور اسرائیلی حکومت میں فلسطینی امور کے کوارڈی نیٹر کمیل ابو رکن نے ایک سیاسی تجزیہ نگار کو بتایا کہ ’’اسرائیل کی کم سے کم خواہش یہی ہے کہ اہالیاں غزہ کے ہاتھوں حماس کا دھڑن تختہ کیا جائے۔‘‘