تحریر: وقار مسعود خان
کشمیر اور فلسطین کے مسائل میں بڑی مماثلت ہے، دونوں خطوں پر طاقتور قوتیں بالجبر قابض ہیں، مگر دونوں علاقوں کے نہتے عوام اس طاقت سے مرعوب ہوئے بغیر اس قبضے کی مخالفت اور مزاحمت کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے دونوں جھگڑے اکثریت پر مبنی مسلمان آبادیوں کیخلاف ہیں اور دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان ایک قدر مشترک مسلمانوں سے عداوت ہے۔ دوسری جانب عالمی ضمیر گہری نیند سو رہا ہے۔ سارے عالم اسلام میں ان دو مسائل نے ایک بڑے کرب، الم، غم اور غصے کی ایک مستقل فضا پیدا کر رکھی ہے، جو نوجوانوں کو تشدد کی راہ اپنانے کی طرف مائل کرتی ہے۔ اس پس منظر میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ بھارت اور اسرائیل میں دفاعی تعاون قدیم ہے۔ ہم یہاں تین اہم واقعات کا ذکر کرینگے، جو اس تعاون کی گہرائی کا پتہ دیتے ہیں۔ ان دو ممالک کا پہلا تعاون 1971ء کی جنگ میں سامنے آیا، جب اسرائیل نے ایران کو بھیجا جانے والا اہم ترین جنگی ساز و سامان بھارت کو فراہم کر دیا۔ یہ تعاون اندرا گاندھی اور گولڈا مائر کے درمیان خصوصی رابطے نے ممکن بنایا۔ یہ تفصیلات سری ناتھ راگھوان کی کتاب ’’بنگلہ دیش کے قیام کی عالمگیر تاریخ ‘‘، جو اس موضوع پر مستندحوالہ ہے، میں درج ہیں۔
دوسرے، امریکی حکومت کی خفیہ دستاویزات جن کو بعد ازاں افشاں کیا جا چکا ہے کے مطابق اسرائیل نے جب عراق کے زیر تعمیر نیوکلیئر ریئکٹر کو تباہ کر دیا تو اس کے فوراً بعد سے بھارت اور اسرائیل ایک دوسرے سے تعاون اور منصوبہ بندی کرنے لگے کہ وہ کس طرح پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کا بھی عراقی حشر کر دیں۔ یہ منصوبے اس خیال سے دھرے رہ گئے کہ خطرات بہت زیادہ تھے یا قبل از وقت ان کی خبر پاکستان کو ہوگئی۔ 1990ء میں ایسی ایک کوشش اس وقت ناکام بنا دی گئی، جب پاکستان نے بھارت کو یہ انتباہ کیا کہ وہ زبردست جواب دے گا بلکہ شائد خود پہلے حملہ کر دے۔ تیسرے، اسرائیل نے بھارت کو کارگل کی جنگ میں ایسی مدد فراہم کی، جس نے اس کی نہایت کمزور حالت کو طاقت میں بدل دیا۔ انڈیا ٹو ڈے نے اپنی 5 جولائی 2017ء کی اشاعت میں یہ حیران کن انکشاف کیا ہے کہ بھارتی فضائیہ اپنی زمینی فوج کو پاکستانی پوزیشنز کے متعلق صحیح معلومات فراہم کرنے میں ناکام ہو رہی تھی اور اس کے میزائل بھی ٹھیک نشانے پر نہیں لگ رہے تھے۔
ایسی حالت میں اسرائیل نے بھارتی فضائیہ کو لیزر گائیڈڈ میزائل فراہم کر دیئے، جو میراج 2000H طیاروں میں لگا دیئے گئے۔ ان میزائلوں کیوجہ سے precision bombing کی گئی، جس نے پاکستان کی بلند و بالا پوزیشنز کی برتری کو ختم کر دیا، جبکہ اسے لائن آف کنٹرول کو عبور کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی۔ ماضی قریب میں اور خصوصاً مودی حکومت کے دور میں دونوں ممالک میں قربتیں تیزی سے بڑھی ہیں۔ اس ضمن میں بھارت اسرائیل سے جنگی ساز و سامان خریدنے والا سب سے بڑا ملک بن کر ابھرا ہے جبکہ اسرائیل سے بھارت کی خریداری دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ 2012-16 کے عرصے میں درآمد کئے جانے والے جنگی ساز و سامان کا 41 فیصد اسرائیل سے خریدا گیا ہے۔ اس ساز و سامان میں بڑے مہلک اور تباہ کن ہتھیار مثلاً وسط فاصلے پر مار کرنے والے میزائل، لیزر گائیڈڈ میزائل، طویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائل اور ان کا کمانڈ اور کنٹرول سسٹم، اواکس طیارے، ہیرون ڈرون، ریڈار اور دیگر ساز و سامان شامل ہے، جس میں سے اکثر ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مشترکہ پیداوار کی بنیادوں پر خریدے گئے ہیں۔ ان تفصیلات سے بھارت کی حالیہ جارحیت میں اسرائیل کے کردار کو سمجھا جا سکتا ہے۔
رابرٹ فسک Robert Fisk ایک نڈر برطانوی صحافی ہیں، جو ایک طویل عرصے سے مشرق وسطٰی اور خصوصاً عرب، اسرائیل اور فلسطین تنازعے پر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ وہ اسرائیلی جارحیت کے بڑے ناقد ہیں اور موقر برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ کیلئے لکھتے ہیں۔ ایک حالیہ مضمون میں فسک نے یہ ہوشربا انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل، پاک بھارت تنازعے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ فسک کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے بھارتی فضائی حملے کی خبر سنی تو انہیں یوں لگا کہ یہ خبر اسرائیل کے کسی فلسطینی علاقے یا شام میں حملے کی خبر ہے۔ اس خبر کے پہلے الفاظ تھے کہ "دہشت گردوں کے کیمپ پر حملہ”، ایک "کنٹرول و کمانڈ سسٹم ” تباہ کر دیا گیا، کئی ’’دہشت گرد‘‘ ہلاک کر دیئے گئے۔ ملٹری اس اطلاع پر کاروائی کر رہی تھی کہ ’’دہشت گرد‘‘ حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ ایک ’’اسلامی جہادی‘‘ ٹھکانہ ختم کر دیا گیا تھا۔ آگے وہ لکھتے ہیں کہ "لیکن پھر اس میں بالاکوٹ کا نام آگیا۔ جو نہ غزہ میں تھا، نہ شام میں اور نہ ہی لبنان میں، بلکہ وہ پاکستان میں ہے۔ حیرت کی بات ہے، یہ کیونکر ممکن ہے کہ بھارت اور اسرائیل یوں خلط ملط ہو جائیں، لیکن اس خیال کو یونہی محو نہیں ہونے دینا چاہیئے۔ اڑھائی ہزار میل کے فاصلے پر تل ابیب میں واقع اسرائیلی وزارت دفاع اور نئی دہلی میں واقع بھارتی وزارت دفاع کے بیانیوں میں یکسانیت کی ایک معقول وجہ ہے۔
کئی مہینوں سے اسرائیل بڑی احتیاط اور چابکدستی سے خود کو قوم پرست بی جے پی حکومت کیساتھ ایک خاموش، غیر سرکاری، غیر تسلیم شدہ، لیکن سیاسی طور پر خطرناک، ’’اسلام مخالف اتحاد‘‘ میں صف آراء کر رہا تھا، جبکہ بھارت خود اسرائیل کی دفاعی پیداوار کی کھپت کی سب سے بڑ ی منڈی بن گیا ہے۔ یہ اتفاقیہ امر نہیں ہے کہ بھارتی پریس نے اس حقیقت کا خوب ڈھنڈورا پیٹا ہے کہ بھارتی ایئر فورس نے پاکستان کے اندر جیش محمد کے ’’دہشت گردوں‘‘ پر جو ’’اسمارٹ بم‘‘ گرائے ہیں، وہ اسرائیل کے تیار کردہ Rafael Spice-2000 تھے، لیکن جس طرح بہت سے اسرائیلی ان موقعوں پر مطلوبہ اہداف تباہ کرنے کی شیخیاں بگھارتے ہیں، بھارتی مہم جوئی بھی ایک خیالی پلاؤ ثابت ہوگی نہ کہ کوئی فوجی کامیابی۔’’300-400 دہشت گردوں‘‘ کی اسرائیلی ساختہ اور فراہم کردہ جی پی ایس گائیڈڈ بموں سے ہلاکت بالآخر کچھ درختوں اور پہاڑیوں کی تباہی سے زیادہ ثابت نہیں ہوگی، لیکن 40 بھارتی فوجیوں کی ایک سفاکانہ کارروائی میں ہلاکت اور اس کی (مبینہ) ذمہ داری کی قبولیت اور بھارتی لڑاکا طیارے کا گرنا یہ حقیقی واقعات ہیں۔
2017ء میں بھارت اسرائیلی جنگی ساز و سامان کا سب سے بڑا خریدار تھا۔ یہ ساز و سامان فلسطین اور شام میں مطلوبہ اہداف پر آزمایا ہوا ہے۔ اسرائیل کے پاس کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اس نے یہ سامان میانمار کو کیوں بیچا ہے، جبکہ مغربی اقوام اس ملک پر اس وجہ سے تجارتی پابندیاں لگا رہے ہیں کہ وہ روہنگیا مسلمان اقلیت کی نسل کشی میں ملوث ہے۔ اس کے برخلاف بھارت سے خرید و فروخت کے معاملات کی ساری دنیا میں نمائش کی جا رہی ہے۔ اسرائیل نے دونوں ملکوں کے ’’اسپیشل کمانڈوز‘‘ کی نغیو (Negev) صحرا میں مشقوں کی فلم بندی بھی کی ہے۔ یقیناً ان مشقوں میں اسرائیل نے بھارتی کمانڈوز کو وہ مہارت سکھائی ہے جو اس نے غزہ اور آبادی سے بھرے دیگر مقامات میں کارروائیاں کر کے حاصل کی ہے۔ برسلز کی محقق شائری ملہوترا نے اسرائیل کے موقر اخبار ’’ہارٹز‘‘ میں لکھا ہے کہ بھارت دنیا میں مسلمانوں کی تیسری بڑی آبادی کا گھر ہے۔ ’’لیکن اسکے باوجود بھارت اور اسرائیل کا تعلق دائیں بازو کی دو جماعتوں بی جے پی اور لکہود پارٹی کے خیالات میں قدرتی ملاپ سے جوڑا جاتا ہے۔ ہندو انتہا پسندوں نے ایک بیانیہ تشکیل دیا ہے، جس کے مطابق انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ستم رسیدہ قوم ظاہر کیا گیا ہے۔‘‘
ملہوترا کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے بھارت میں سب سے بڑے ممدوح وہ ’’انٹرنیٹ ہندو‘‘ ہیں، جن کو اسرائیل کی یہ ادا پسند ہے کہ جس طرح وہ فلسطینیوں کی پٹائی کرتا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ بھارت اور اسرائیل کا تعلق ضرورت کے تحت نہ کہ نظریاتی بنیادوں پر ہونا چاہیئے، لیکن یہ بڑا مشکل ہے کہ صیہونیت کا کمبل ہندو قوم پرستی کے جسم سے جدا ہو جائے، کیونکہ بھارت کو وہ ہتھیار درکار ہیں، جو اس نے ابھی حال میں پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے استعمال کیے ہیں۔ ’’دہشت گردی کیخلاف جنگ‘‘ یا ’’اسلامک دہشت گردی‘‘ کیخلاف جنگ میں ایک دوسرے کا ساتھ بظاہر ایک قدرتی امر ہے، لیکن یہ دونوں ممالک ایسے علاقوں کو نگین رکھنا چاہتے ہیں، جو ان کے مقبوضہ ہیں۔ آخری اہم حقیقت یہ ہے کہ بھارت، پاکستان اور اسرائیل تینوں ایٹمی قوتیں ہیں۔ یہ بات کشمیر اور فلسطین میں مشترک نہیں ہے اور یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیئے کہ بھارت میں 18 کڑوڑ مسلمان بستے ہیں۔‘‘
مندرجہ بالا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ بھارت اور اسرائیل مل کر کشمیر کے معاملے کو اسی انداز میں حل کرنا چاہتے ہیں، جس طرح اسرائیل نے فلسطین کا معاملہ کیا ہے۔ نیز یہ کہ حالیہ جارحیت میں اسرائیلی اسلحہ جس میں اسمارٹ بم بھی شامل ہیں، استعمال ہوا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف موثر دفاع کیا ہے بلکہ بھارت کو یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے فلسطینی تجربے کو ایک سطحی انداز میں کشمیر کے مسئلے پر منطبق نہ کرے، کیونکہ فلسطین کے مسئلے کے برخلاف، جہاں کوئی دوسرا ملک اس قضیے کا فریق نہیں ہے، یہاں پاکستان ایک مستند و عالمی سطح پر تسلیم شدہ فریق ہے۔ وہ ایٹمی طاقت بھی ہے اور اسرائیل کے فراہم کردہ ہر طرح کے تباہ کن اور مہلک ہتھیاروں سے لیس بھارت سے کسی طور بھی نہ صرف مرعوب نہیں ہوگا، بلکہ اس کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ بھارت کو زیادہ نقصان پہنچا دے۔ لہٰذا اسے اپنا جنگی جنوں ایک حد میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
’’روزنامہ نوائے وقت‘‘