تحریر: محمد اسلم خان
رہی بات اسرائیل کی تو دانشورانہ ’’لْچ‘‘ تلنے، اس کیلئے تاویلیں گھڑنے اور راستے تلاش کرنا کوئی نئی خبر نہیں۔ جنرل مشرف نے خورشید قصوری کی صورت اسرائیلیوں سے راہ و رسم بڑھانے کا سلسلہ شروع کیا تھا، حال ہی میں تازہ انٹرویو میں ’’اسرائیلی حکومت کی آمادگی اور فوری جواب دینے کے رویئے کی پرویز مشرف نے تعریف بھی کی تھی۔‘‘ پھر بعد میں ایک ’’بادامی‘‘ انٹرویو میں انہوں نے وضاحت کی کہ اس موقع پر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے فلسطینیوں کے قصاب کہلانے والے ایریل شیرون کی تین عرب اسرائیل جنگوں میں اختیار کردہ حکمت عملی، دلیری کی تعریف بھی کی۔ بات سادہ سی ہے، اگر سمجھ آجائے؟ سب سے بڑے سالار، حکمت کار، رہنما اور آخری نبی ٔ زمان کے سامنے بھی بہت سارے ’’آپشن‘‘ رکھے گئے تھے، لیکن آپ نے فرمایا تھا کہ میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج رکھ دو پھر بھی تمہاری یہ بات میں نہیں مان سکتا۔ حضرت امام حسینؓ کے سامنے بھی بہت سارے ’’آپشن‘‘ ہوں گے؟ کئی مثالیں ہیں۔ ہماری یہاں ایسے ’’دماغ‘‘ موجود ہیں، جو بھارت اور اسرائیل کے ساتھ ہماری "دوستی” کرانے پر تلے رہتے ہیں۔ وہ قائد اعظمؒ کے فرامین کو بھی فراموش کر دیتے ہیں۔ جیسے مودی نے مہاتما گاندھی جو انکے بابائے قوم، انکی فلسطین کیلئے پالیسی دفن کر دی۔ عرب کے بڑے بڑے اونچے لمبے اور طاقتور جثے کے مالک دل کے اتنے کمزور ثابت ہوئے کہ اصول پر کھڑے نہ رہ پائے۔
آخری مثال حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ہے کہ جب آنحضرت ؐنے اپنے خاندان کے لوگوں کو دعوت دی تو صرف سات سال کا کمزور ٹانگوں والا بچہ ان کی سچائی کی گواہی دینے کے لئے کھڑا ہوا تھا۔ سچائی لکھنا، بولنا اور اس پر قائم رہنا آسان نہیں۔ غالب نے کہا تھا:
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
یہاں کچھ ذکر اْن بزرگوں کا بھی ہو جائے، جو شاید آج کے دانشوروں سے زیادہ علم بھی رکھتے تھے، انہیں اسرائیل، انگریز اور ہندوؤں کا سب سے زیادہ تجربہ بھی تھا اور جن کا اسلام اور پاکستان سے وفاداری کا مرتبہ اور درجہ بھی غالباً آج والوں سے بلند و برتر اور منفرد ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال اور بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ کا بھی ہمیں پتہ ہونا چاہیئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب بانی پاکستان اور اس ملک کی بانی جماعت نے ہی اس مسئلے پر قراردادیں اور مؤقف دے رکھا ہو تو پھر پارلیمان کیا کریگی؟ اور ہم اپنے قومی مؤقف کو چند لونڈوں لپاڑوں کی ایما پر دریا بْرد کریں گے۔؟
نومبر1917ء میں برطانیہ کے اس وقت کے سیکرٹری خارجہ آرتھر بالفور نے عیار صیہونی لارڈ راتھ چائلڈ، یہ وہی راتھ چائلڈ خاندان کے ساتھ مل کر امریکی صدر ووڈرو ولسن کی پیشگی تائید سے یہودیوں کیلئے فلسطین میں’’قومی گھر‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اس بین الاقوامی قبضہ اور غنڈہ گردی کی شدید مذمت کی اور سراپا احتجاج بن گئے۔ جولائی 1922ء میں لیگ آف نیشنز نے اس کو سند جواز بھی دیدی۔ برصغیر میں مظاہرے، جلسے، جلوس، تقاریر اور قراردادیں منظور ہوئیں کہ برطانوی حکمران اپنا یہ اقدام واپس لیں۔ فلسطین اور مصر میں ظلم و زیادتی پر برطانیہ اور فرانس دونوں پر کڑی تنقید کی تھی۔ برطانیہ کی نیشنل لیگ کی مس فارقوہارسن نے علامہ اقبال کو لارڈپیل کی سربراہی میں رائل کمیشن کی یہودیوں کو فلسطین ہجرت کی اجازت دینے سے متعلق سفارشات پر اظہار خیال کی دعوت دی، جس پر 20 جولائی 1937ء کو انہوں نے کہا تھا ’’ہمیں نہیں بھولنا چاہیئے کہ فلسطین برطانیہ کی ملکیت نہیں۔ لیگ آف نیشن کے مینڈیٹ کے تحت برطانیہ کے پاس یہ علاقہ ہے۔ لیگ آف نیشنز کے بارے میں اب ایشیائی مسلمان جان رہے ہیں کہ یہ ایک اینگلو فرینچ ادارہ ہے، جس کو کمزور مسلمانوں کے علاقوں کو تقسیم کرنے کیلئے بنایا گیا ہے۔ نہ ہی فلسطین یہودیوں کی ملکیت ہے، جو اپنی آزاد مرضی سے یہ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے تھے، جس کے بعد عرب اس پر آباد ہوئے۔ نہ ہی صیہونیت کوئی مذہبی تحریک ہے۔ بلاتعصب یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ صیہونیت ایک دانستہ برپا کردہ تحریک ہے، جس کا مقصد یہودیوں کو ’’قومی گھر‘‘ دلانا نہیں بلکہ برطانوی نوآبادیات کو بحیرہ روم کے ساحل پر آباد کرنا ہے۔
27 جولائی1937ء کو علامہ محمد اقبال نے اپنے اخباری بیان میں فرمایا تھا ’’تاریخ کی روشنی میں 1300سال سے زائد عرصہ قبل حضرت عمر فاروقؓ کے یروشلم میں داخل ہونے سے پہلے اسرائیل فلسطین یہودی ریاست کا مسئلہ ختم ہوچکا ہے۔ پروفیسر ہاکنگز کی نشاندہی کے مطابق یہودی رضاکارانہ طور پر یہاں سے منتشر ہوگئے تھے اور انکے صحائف زیادہ تر فلسطین سے باہر لکھے گئے ہیں۔ نہ ہی یہ کوئی عیسائی مسئلہ تھا۔ جدید تاریخی تحقیق نے پیٹر ہرمٹ کے ہونے پر بھی شکوک پیدا کر دیئے ہیں۔ بالفرض یہ مان لیا جائے کہ صلیبی جنگیں فلسطین کو مسیحی مسئلہ بنانے کیلئے تھیں، تو صلاح الدین ایوبی نے اسے شکست دے دی تھی، اس لئے فلسطین مکمل طور پر ایک مسلم مسئلہ ہے۔
7 اکتوبر1937ء کو علامہ اقبال نے قائد اعظم کو خط لکھا اور کہا کہ ’’فلسطین کا سوال مسلمانوں کے ذہنوں کو پریشان کر رہا ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ آپ ایک مضبوط قرارداد اس پر منظور کریں گے۔‘‘ 15 اکتوبر1937ء کو لکھنئو میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا تھا ’’تاج برطانیہ نے عربوں سے وعدہ خلافی ہے۔ عربوں کو جنگ عظیم میں استعمال کرنے کے بعد جھوٹے وعدے کرکے ان پر بالفور اعلامیہ مسلط کر دیا گیا۔ ہم سے اب کہا جا رہا ہے کہ حقائق کو دیکھیں؟ لیکن یہ صورتحال پیدا کس نے کی ہے؟ یہ سب برطانیہ کا کیا دھرا ہے۔ برطانیہ وعدہ خلافی کرکے اپنی قبر کھودے گا۔ برصغیر کے مسلمان عربوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔’’ اجلاس میں منظور کردہ قرارداد میں اعلان کیا گیا تھا کہ’’اگر برطانیہ اپنے اقدام سے باز نہ آیا تو مسلمان برطانیہ کو اسلام کا دشمن تصور کرینگے اور وہ اس کیخلاف اپنے ایمان کے تحت تمام اقدامات کرینگے۔‘‘ قائد اعظم نے اپنی وفات سے دو ہفتے قبل عید الفطر کے پیغام میں مسلم دنیا کو مبارک دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’فلسطین اور کشمیر میں پاور پالیٹکس کا ڈرامہ جاری ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی نصیحت کی تھی کہ ’’لندن اور جینوا سے داد رسی نہ مانگنا کیونکہ فرنگ کی شہہ رگ پنجہ یہود کے قبضے میں ہے۔‘‘
یاد رکھنا چاہیئے کہ پارلیمان کا کام پالیسی سازی نہیں بلکہ قانون سازی ہے۔ فیصلہ سازی آئین کے تحت کابینہ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن پارلیمان کی ماں یعنی عوام اس معاملے میں کسی طور پر آمادہ نہیں۔ کشمیر اور فلسطین اس پر پاکستانی قوم کا اجماع ہے۔ جو اس سے پنگا بازی کریگا، وہ اپنی قبر کی جگہ بھی وصیت کر دے۔ کابینہ بھی وہ فیصلہ نہیں کرسکتی، جو پاکستان کے عوام کو قبول نہ ہو۔ ایک سوال اور بھی کیا جاتا ہے کہ عربوں نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور ہمیں کچھ زیادہ ہی تکلیف ہے؟ ایسے جہلاء سے پوچھا جانا چاہیئے کہ کون سے عرب ملک میں جمہوریت ہے؟ کیا وہاں کے عوام اس کے حق میں ہیں؟ کیا پاکستان میں بادشاہت ہے؟ کیا یہاں کے عوام سے آپ نے پوچھ لیا ہے؟ اگر عرب دنیا میں جمہوریت ہوتی تو کیا جو کچھ ہو رہا ہے، یہ وہاں ہوسکتا تھا؟ جب طالبان کو تسلیم کیا گیا تھا تو پارلیمان سے پوچھا گیا تھا۔؟
اسرائیل کی محبت جن میں اتری ہے، ان کیلئے ایک خبر ہے کہ اس پر کچھ غور کریں تو شاید دماغ کی کوئی کھڑکی کھل جائے۔ پاک بھارت جھڑپ کے بعد اطلاع آئی ہے کہ اسرائیل نے پہلی بار تھاڈ میزائل نصب کر دیئے ہیں۔ یہ جدید ترین میزائل امریکہ سے حاصل کئے گئے ہیں۔ یہ حملہ آور میزائل کو فضاء میں ہی روکنے اور تباہ کرنے کا جدید ترین نظام ہے، جس کی افادیت اب تک سو فیصد رہی ہے۔ 2008ء میں پہلی بار اسے امریکی فوج کے حوالے کیا گیا تھا۔ یہ میزائل بھی وہی کمپنی بناتی ہے، جس نے ایف 16 بنائے ہیں۔ اسکی رینج 200 کلومیٹر بتائی جاتی ہے، یعنی جیسے ہی کوئی میزائل اس دائرے میں آتا ہے، اس کا خودکار راڈار نظام خطرے کی نشاندہی کرتا ہے اور پھر اسکو جوابی میزائل سے ختم کر دیتا ہے۔ تھاڈ میزائل تین سے پانچ ہزار کلومیٹر تک کے دور مار میزائل روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ اچانک اسرائیل کو کیا خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ پہلے ہی جدید ترین میزائلوں سے لیس ’’آئرن ڈوم‘‘ یا آہنی گنبد کے نام سے اسرائیل کے دفاع کا نظام موجود ہے، جس کے بارے میں اسرائیلی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ کوئی میزائل اس دفاعی نظام کو شکست نہیں دے سکتا۔ پھر تھاڈ جیسے جدید ترین میزائل کو کیوں اسرائیل پہنچایا گیا ہے؟ کہا جا رہا ہے کہ ایرانی میزائلوں سے خوف ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایران میزائل ٹیکنالوجی میں کتنا طاقتور ہے، یہ کوئی راز نہیں۔ اصل بات اسرائیلی بتا نہیں رہے۔ وقت آنے پر پتہ چلنے ہی والا ہے۔ آخری بات جو لوگ اپنے اندرونی مسائل سے بہت زیادہ تنگ ہیں اور اسرائیل سے دوستی کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہودی بہت طاقتور ہیں اور سرمائے پر ان کا کنٹرول ہے، تو وہ یہودی بن جائیں۔ کلمے کا بوجھ کیوں اٹھا رکھا ہے۔ یہ قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اور ساتھ ہی نصیحت بھی فرمائی ہے کہ تم ان کو خوش نہیں کرسکتے۔ یہ خوش صرف ایک بات پر ہونگے کہ تم ان کی ملت میں شامل ہو جائو۔ الحذر! یہ واضح ہوا، اسرائیل کو تسلیم کرنا موت کی راہ پر چلنا ہوگا، کوئی شہزادہ چاہے یا کوئی بادشاہ، پاکستان نے اپنی راہ پر چلنا ہے۔
’’روزنامہ نوائے وقت‘‘