مقبوضہ بیت المقدس (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) امریکی کی موجودہ حکومت اور صدرڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اسلام کے تاریخی شہر مقبوضہ بیت المقدس کو غاصبصیہونیوں کے حوالے کرنے کے یکے بعد دیگر کئی خطرناک اقدامات کیے گئے۔ ایک طرف امریکی حکومت کا یہ دعویٰ کہ وہ فلسطینیوں کو ان کےحقوق دلانے کی کوشش کررہی ہے اور دوسری طرف امریکا کی فاشٹ حکومت نے فلسطینیوں کو مسلسل دھوکے میں رکھنے کے ساتھ ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی مجرمانہ کوشش کی گئی۔
بیت المقدس کوعالم اسلام اور فلسطینی قوم سے چھین کر اسرائیلی دشمن کے حوالے کرنا اور سونے کی تھالی میں ڈال کرصیہونیوں کے حوالے کرنا فلسطینی قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی مذموم امریکی کوشش ہے۔
سات دسمبر 2017ء کو امریکا نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد 15 مئی 2018ء کو امریکا نےالقدس عملا اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ اس دن فلسطینیوں نے امریکا کے سازش کا اپنی جانیں دے کر مقابلہ کیا اور 70 فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا۔
یک نمائندہ دفتر
القدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے خلاف فلسطینی قوم نے ہرسطح پراحتجاج کیا۔ گذشتہ برس امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے اکتوبر میں اعلان کیا کہ وہ القدس میں فلسطینیوں کو سروسز فراہم کرنے والے قونصل جنرل کو بند کرنے کے بعد اس کے بعض شعبوں کو امریکی سفارت خانے میں منتقل کریں گے۔
چند روز پیشتر امریکی حکومت کے ایک عہدیدار نے انکشاف کیا تھا کہ 175 سال قبل القدس میں قائم کردہ امریکی قونصل جنرل بیت المقدس امریکی سفارت خانے میں مدغم کردیا جائے گا۔ خبر رساں ادارے ’’رائیٹرز‘‘ سے بات کرتے ہوئےکہا کہ امریکی قونصل جنرل کے انچارج کو سفارت خانے میں فلسطینی امور کا انچارج مقرر کیا تھا۔
اسرائیلی صحافی باراک رافیڈ نے کہا کہ امریکی قونصل جنرل کی بندش سے فلسطینیوں کے لیے امریکی خدمات متاثر ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ القدس قونصل جنرل کے انچارج کو امریکی سفارت خانے میں فلسطینی امور کا انچارج مقرر کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ القدس میں امریکی سفارت خانےمیں براہ راست کوئی فلسطین سیکشن موجود نہیں۔ وہاں پرفلسطینیوں کے حوالے سے قسم کی فائلیں امریکا نہیں بھیجی جائیں بلکہ وہ وہیں سفارت خانے میں نمٹا دی جائیں گی۔
فلسطین کا رد عمل
تنظیم آزادی فلسطین کے سیکرٹری صائب عریقات نے القدس میں امریکی قونصل جنرل کے امریکی سفارت خانے میں ادغام کا فیصلہ امریکا کا فلسطینیوں کے حقوق کے خلاف ایک نیا اقدام ہے۔
انہوں نے امریکی حکومت کے فیصلے کو القدس کو اسرائیل کے حوالے کرنے کا نیا امریکی۔ اسرائیلی حربہ قرار دیا۔
فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے کہا کہ فلسطینیوں کے نزدیک امریکی فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں۔امریکی حکومت کا یہ اقدام امن عمل کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے متراف ہے۔
تنظیم آزادی فلسطین کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن تیسیر خالد نے امریکی حکومت کےاقدام کو معاندانہ قرار دیا۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)