تحریر:صابر ابومریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
سابق صدر پاکستان پرویز مشرف کا شمار پاکستان میں موجود ان چند افراد میں ہوتا ہے کہ جوہمیشہ چور دروازوں سے پاکستان کی نظریاتی دشمن صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی بہانے سے تعلقات بنانے یا دوستی قائم کرنے کے خواہاں رہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان ایک ایسی نظریاتی ریاست کے طور پر وجو دمیں آیا تھا جس نے روز اول سے ہی فلسطین کی زمین پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو قیام سے قبل ہی مسترد کر دیا تھا اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے قیام پاکستان کی تحریک کے بنیادی عناصر میں ہی اس بات کو شامل کرتے ہوئے عالمی استعماری قوتوں کو خبر دار کر دیا تھا کہ برصغیر کے مسلمان ارو بالخصوص جو پاکستان کے قیام کے لئے سرگرم مسلمانان برصغیر فلسطین میں قائم ہونے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے اور فلسطین کی آزادی کے لئے برصغیر کے مسلمان جدوجہد جاری رکھیں گے۔صرف بات یہاں تک باقی نہیں تھی بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے مفتی اعظم فلسطین کو خطوط لکھے اور انہیں برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے اپنء بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی ۔یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے بعد جب خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول وضع کئے گئے تو بابائے قوم کی سرپرستی میں واضح طور پر اسرائیل کی غاصب ریاست کو جعلی قرار دیا گیا ارو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان کے پاسپورٹ پر لکھا ہو اہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے تماممالک میں قابل قبول ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف نے جب ملک میں مارشل لاء لگایا تو پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی قوتوں کو اپنی حکومت کے ساتھ ملا لیا اور بعد ازاں موقع ملتے ہی کوشش کی کہ اسرائیل کو پاکستان تسلیم کر لے لیکن پاکستان کی عوام اور سیاسی ومذہبی جماعتوں نے مشرف صاحب کے صہیونی عزائم کے اس ایجنڈے کو ناکام کر دیا تھا تاہم سابق صدر کی یہ کوششیں دم توڑ گئیں ۔
سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے ایجنڈے کی ناکامی کے بعد خفیہ طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی متعدد کوششیں کی جس کے نتیجہ میں کبھی وہ خود امارات میں اسرائیلی عہدیداروں سے ملتے رہے اور کبھی اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید قصوری کو ترکی میں اسرائیل کے خفیہ ایجنسیوں سمیت عہدیداروں سے ملاقاتیں کروانے کا کردار ادا کیا ، حالیہ دنوں انہوں نے امارات میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران بھی ان باتوں کا اظہارکیا اور اسے اپنی سفارتی کامیابیوں میں سے ایک کامیابی قرار دینے کی کوشش کی ۔حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ مملکت پاکستان کے اصولی موقف اور بابائے قوم کے نظریات سے مکمل طور پر انحراف اور سنگین گڈاری کے مترادف ہے۔
ماضی میں لکھے گئے گذشتہ چند مقالوں میں بندۂ حقیر نے کوشش کی ہے کہ پاکستانی سفارتی محاذ پر سرگرم کن کن شخصیات نے متعدد ممالک میں متعدد مرتبہ اسرائیلی ہم منصبوں سے ملاقاتیں کی تھیں اور اس طرح کی کوششیں زیادہ تر سابق صدر پرویز مشرف کے گیارہ سالہ دور میں زیادہ نظر آئی ہیں۔حالانکہ ایسی کوششیں ہمیں شہید بینظیر بھٹو او ر نواز شریف صاحب کے ادوار میں بھی ہوتی رہی لیکن جمہوری حکومتوں کے ہونے کے باعث ہمیشہ ان وزرائے اعظم کو عوامی دباؤ کا خطرہ پیش رہا جس کے باعث یہ کوششیں زیادہ کارگر ثابت نہ ہوئیں۔
پاکستان میں صہیونیوں کے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے سابق صدر پرویز مشرف تنہا ہی امید وار نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ کئی ایک اور نام بھی ہیں جو اب ’’بلی تھیلے سے باہر‘‘ والی مثال کی طرح سامنے آ رہے ہیں جن میں سابق جنرل (ر) امجد شعیب، پاکستان تحریک انصاف کی خاتون رکن قومی اسمبلی عاصمہ حدید، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی، موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کا میونخ کانفرنس میں مبہم انداز میں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے حق میں بیان دینا وغیرہ شامل ہیں اور نہ جانے مزید اب کتنے اور ایسے عناصر سامنے آئیں گے کہ جو بے سر اور پاؤ ں کی باتیں کرتے ہوئے پاکستان کو اسرائیل کی گود میں جھونکنے کی باتیں کرتے نظر آئیں گے۔
حالیہ دنوں سابق صدر پرویز مشرف نے دبئی میں قومی سلامتی کے عنوان سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا لیکناس قومی سلامتی کی کانفرنس میں جو انوکھی بات سامنے آئی و ہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر زور دینا تھا اورپھر اس کانفرنس کے اگلے ہی ایک دوروز میں اسرائیل کے دوست بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا اور پھر مسلسل یہ تناؤ باقی رہا ۔کیا سابق صدر پرویز مشرف کی اس پریس کانفرنس میں اسرائیل اور پاکستان کے متعلق گفتگو اور پھر بھارتی جارحیت کا آغاز کوئی پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کا حصہ تو نہیں ہے کہ جس کے بارے میں سابق صدر پرویز مشرف پہلے سے ہی مطلع تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے قومی سلامتی کے عنوان پر اپنی پریس کانفرنس میں قومی سلامتی سے زیادہ پاکستان کو اسرائیل کے قریب ہونے کے مشورے اور دلائل دینے پر زور دیا تھا۔بہر حال ماہرین سیاسیات کی نظر میں سابق صدر کی پریس کانفرنس اور اس میں اسرائیل پاکستان تعلقا ت پر زور دینا اور پھر بھارتی جارحیت کا آغاز کہ جس میں بھارت نے اسرائیلی اسلحہ استعمال کیا تھا سب باتوں کا آپس میں کچھ نہ کچھ لنک ضرور نظر آتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں سابق صدر پرویز مشرف کی طر ح صہیونی جعلی ریاست اسرائیل کے لئے ہمدردیاں رکھنے والے عناصر موجود ہیں اور وہ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کو پاکستان کے لئے خظرناک قرار دے کریہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر پاکستان اسرائیل کے ساتھ دوستی قائم کر لے تو مسئلہ کشمیر کا حل نکالا جا سکتا ہے جبکہ یہ عناصر یہ بات بتانے سے گریزاں ہیں کہ یہی اسرائیل ہے کہ جو خود فلسطین پر ستر سالوں سے غاصبانہ تسلط قائم کئے ہوئے ہے اور کشمیر میں بھارت کی طرح اسرائیل فلسطین میں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کر رہا ہے۔تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر پاکستان اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم بھی کرلے تو کیا سرائیل کے پاکستان جیسی اٰیٹمی طاقت کے خلاف ناپاک عزائم ختم ہو جائیں گے یقیناًایسا نہیں ہوگا۔ یہاں مجھے جنرل (ر) غلام مصطفی صاحب ک انجی محفل میں ایک تاریخی جملہ یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر پاکستان اسرائیل کے لئے تل ابیب میں بیٹھ کر بھی چوکیداری کرے تب بھی اسرائیل پاکستان کے خلاف دشمنانہ عزائم سے باز نہیں آئے گا۔یہاں ایک اور مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ جن عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی بات کی جاتی ہے ان میں مصر اور اردن دو ایسی مثالیں ہیں کہ جنہوں نے اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے تو کیا آج ان کی حالت پاکستان سے بہتر ہے یا بد تر ؟
حالیہ دنوں بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کی جانب سے پاکستان پر کی جانے والی جارحیت خود منہ بولتا ثبوت ہے کہ بھارت اور اسرائیل کسی طور پر بھی پاکستان کے خیر خواہ نہیں ہیں لہذا پاکستان میں موجود صہیونی عزائم رکھنے والے عناصر کو چاہئیے کہ صہیونیوں کی خدمت پر توجہ دینے سے زیادہ پاکستان کی ترقی اور وطن کی بقاء و دفاع کے لئے اپنی توانائیاں صرف کریں کیونکہ اسرائیل سے دوستی وطن سے خیانت اور غداری ہے۔سابق صدر پرویز مشرف صاحب کوبھی پاکستان کے عوام کی طرف سے یہی مشورہ ہے کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی کو امارات میں پر سکون انداز میں گزاریں اور پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات بنانے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ اقبال ؒ کی تعلیمات کے مطابق ہو چکا ہے اور پاکستان کے عوام اس فیصلہ پر کاربند ہیں اور کسی بھی حکومت ی اسابق عہدیداروں کو ہر گز یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ کوئی پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی سازش کرے اس کا راستہ روکا جائے گا۔