رام اللہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی صدر محمود عباس نے اعلان کیا ہے کہ اگر کلیئرنگ فنڈز سے کٹوتی ہوئی تو وہ یہ رقم ہر گز وصول نہیں کریں گے۔ کلیئرنگ فنڈز وہ رقم ہے جو اسرائیل مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں داخل ہونے والے سامان پر ٹیکس کی صورت میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے وصول کرتا ہے اور اس کے بدلے دو فی صد کمیشن حاصل کرتا ہے۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق محمود عباس نے یہ بات منگل کے روز امریکی کانگریس کے ڈیموکریٹس ارکان کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہی۔ سرکاری ریڈیو (صوت فلسطين) نے بدھ کے روز فلسطینی صدر کا بیان نشر کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’’ہم تمام کلیئرنگ فنڈز لینے سے انکار کرتے ہیں۔ ہمیں کٹوتی کے ساتھ یہ فنڈز نہیں چاہئیں۔ اس رقم کو ان ہی کے پاس رہنے دیں‘‘۔
فلسطینی صدر کا کہنا تھا کہ ’’میں آپ لوگوں کو صاف طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر ہمارے پاس صرف 2 سے 3 کروڑ شیکل ہوں اور وہ شہداء کے اہل خانہ کو ادا کرنے ہوں تو ہم اس پوری رقم کو شہداء کے اہل خانہ کو دے دیں گے۔ میرا مطلب ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی کے پاس ایک پائی بھی نہ ہو تو میں فلسطینی شہداء، قیدیوں اور زخمیوں کے اہل خانہ اور خاندانوں کو رقم ادا کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاؤں گا‘‘۔
محمود عباس نے واضح کیا کہ اس کے علاوہ میں تمام بین الاقوامی اداروں میں جا کر (اسرائیل کی) شکایت کروں گا ، شاید کہ دنیا میری بات سن لے۔
مالیاتی معلومات کے مطابق مذکورہ کلیئرنگ فنڈز سے فلسطینی اتھارٹی کے ملازمین کی 80 فی صد تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ لہذا یہ رقم وصول نہ کرنے کا مطلب ہو گا کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے مالی واجبات کی ادائیگی پوری نہیں کر سکے گی۔
اسرائیل کی چھوٹی کابینہ نے اتوار کے روز کہا تھا کہ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو ٹیکس کی مد میں دی جانے والی رقم سے پانچ فی صد کے قریب کٹوتی کرے گا۔ اس لیے کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی کارکنان کی سپورٹ کی جاتی ہے۔ اسرائیلی کابینہ کا یہ فیصلہ امریکا میں گزشتہ برس مماثل قانون کی منظوری کے بعد سامنے آیا ہے۔
عبوری امن سمجھوتوں کے تحت اسرائیل فلسطینیوں کی طرف سے ٹیکس کی رقم اکٹھا کرتا ہے۔ فلسطینیوں کے اندازے کے مطابق اس رقم کا موجودہ حجم ماہانہ 22.2 کروڑ ڈالر ہے جس میں سے اسرائیل دو فی صد کمیشن حاصل کرتا ہے۔ سال 2014 میں امن مذاکرات کا سلسلہ معطل ہونے کے بعد سے اسرائیلی کبھی کبھار احتجاجی اقدام یا دباؤ کے واسطے اس رقم کو روک بھی لیتا ہے۔
محمود عباس نے منگل کے روز رام اللہ میں اپنے دفتر میں امریکی وفد سے ملاقات کے دوران خبردار کیا کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان امن عمل ڈھیر ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے خطے یا دنیا میں امن عمل ڈھیر ہو جائے کیوں کہ ہم مشرق وسطی میں امن عمل کے برباد ہونے کے خطرات سے اچھی طرح واقف ہیں‘‘۔
محمود عباس کا کہنا تھا کہ ’’اسی واسطے ہم آپ لوگوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں کہ آپ خواہ کانگریس میں ہوں یا امریکی انتظامیہ میں ،،، بھرپور کوشش کریں۔ اسی طرح اسرائیلیوں کو بھی اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ امن، ان کے ، امریکا کے ، دنیا کے اور ہمارے بھی مفاد میں ہے‘‘۔
فلسطینی صدر نے اس عزم کا اعلان کیا کہ وہ اپنی قوم کے حقوق کے حصول کے لیے قانونی اور پر امن راستہ اپنائیں گے اور اس پر اپنی پوری زندگی بتا دیں گے۔