جنین (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہرجنین میں الجلمہ گذرگاہ قائم ہے۔ کہنے کو تو یہ نام نہاد گذرگاہ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہروں اور غرب اردن میں فلسطینیوں کی آمد ورفت کا ایک راستہ ہے۔ دونوں فلسطینی علاقوں کے شہروں میں آنے جانے والے فلسطینی الجلمہ گذرگاہ کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ گذرگاہ اسرائیلی درندوں کے کنٹرول میں ہے اور اسرائیلی فوج اس گذرگاہ کو نہ صرف فلسطینیوں کی توہین اور تذلیل کے لیے ایک حربے کے طورپر استعمال کرتے ہیں بلکہ یہاں سے گذرنے والے فلسطینیوں پر گولیاں چلا کر انہیں شہید اور زخمی کردیا جاتا ہے۔
چند روز قبل اسرائیلی فوج نے وحشیانہ ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک فلسطینی لڑکے عبداللہ ابو طالب کو گولیاں مار کر شہید کردیاتھا۔ اس خونی گذرگاہ پر شہید ہونے والوں میں عبداللہ طالب نہ تو پہلا شہید ہے اور نہ ہی شاید آخری شہید ہوکیونکہ اس گذرگاہ سے گذرنے والے فلسطینیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا صیہونی دشمن کا دل پسند مشغلہ بن چکا ہے۔
عبداللہ ابو طالب کو اسرائیلی فوج نے 4 فروری کو گولیاں مار کر شہید کیا۔ یہ گذرگاہ اسرائیلی فوج کے لیے فلسطینیوں کے خلاف کاروائیوں کے لیے شکار گاہ بن چکی ہے۔ یہاں سے گذرتے ہوئے کسی بھی فلسطینی کو بغیر کسی جرم کے گولیاں مار کر شہید کیا جاسکتا ہے۔ فلسطینیوں سے ان کا سامان سفر تک چھین لیا جاتا ہے اورانہیں زخمی کرنے کے بعد تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے سڑک پر بے یارو مدد گار پھینک دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی اس کے قریب آنے کی کوشش کرے یا زخمی کی مدد کی ہمت دکھائے تو اسے بھی ’’سبق ‘‘ سکھایا جاتا ہے۔
الجلمہ کی خونی تاریخ
سنہ 2000ء میں فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے ناجائز تسلط کے خلاف شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ الاقصیٰ کے بعد یہ گذرگاہ فلسطینیوں کا خون بہانے کا ایک ذریعہ بن چکی ہے۔ اب تک اس گذرگاہ پر کئی فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کیا جا چکا ہے۔ سنہ 2000ء میں اسرائیلی فوج نے فلسطینی نیشنل سیکیورٹی کے پانچ اہلکار شہید کردیے۔
سنہ 2015ءمیں فلسطین میں تحریک انتفاضہ القدس کا آغاز ہوا۔ اس دوران اسرائیلی فوج نے دو ماہ کے دوران الجلمہ گذرگاہ پر 4 فلسطینی شہید کیے۔ انہیں کسی قسم کا خطرہ نہ ہونےکے باوجود گولیاں مار کر بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔
ایک مقامی شہری امین جرادات نے بتایا کہ الجلمہ گذرگاہ پر فلسطینیوں کی مشکلات ناقابل بیان ہیں۔
الجلمہ کی فلسطینی ایڈمنسٹریشن کونسل کے چیئرمین محمد ابو فرحہ نےبتایا کہ اسرائیلی فوج الجلمہ گذرگاہ کو فلسطینیوں کے لیے مشکلات میں اضافے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اطراف کے فلسطینی علاقوں میں بھی چوبیس گھنٹے بے چینی ، پریشانی اور خوف کی کیفیت قائم رہتی ہے۔
الجلمہ گذرگاہ پر اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بننے والےشہریوں میں مزدور طبقہ اور تجارت بھی شامل ہیں۔ مزدوروں اور دیگر فلسطینیوں کو اس گذرگاہ پر گھنٹوں کے حساسب سے روکے رکھا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ بروقت کام پر نہیں پہنچ پاتے اور ان کا وقت ضائع ہوجاتا ہے۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)