عکا(روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطین کی ان گنت تاریخی یاد گاریں جو گذشتہ سات عشروں سے یہودیانے کی سازشوں کی زد میں ہیں۔ ان میں سے ایک شمالی فلسطین کے شہر عکا میں واقع ’’خان العمدان‘‘ نامی ایک تاریخی عمارت بھی ہے جو فلسطین میں خلاف عثمانیہ کی دم توڑتی یادگاروں میں سے ایک ہے۔
’’خان العمدادن‘‘ ایک اہم تاریخی وثقافتی یادگار ہے اور خلافت عثمانیہ کی ایک تجارتی علامت ہے۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں خان العمدان کو عکا میں بین الاقوامی تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔
’’خان العمدان‘‘ آج سے 200 سال قبل عثمانی گورنری احمد پاشا جزار نے تعمیر کرائی جسے ان کے دور میں ایک تجارتی مرکز کا درجہ حاصل ہوگیا۔ فلسطین میںاسرائیلی ریاست کے ناجائز قیام کے بعد ’’خان العمدان‘‘ پر قبضہ کرلیا اور اسے ایک سیاحتی ہوٹل کی شکل دے دی گئی ہے۔ اس کی شناخت مٹانے کے لیے عمارت میں موجود عربی ناموں کو انگریزی اور عبرانی میںبدل دیا گیا ہے۔
دوسری جانب عکا کے فلسطینی باشندے ’’خان العمدان‘‘ کی تاریخی اور ثقافتی حیثیت کے دفاع کے لیے قانونی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ اسرائیل کی ایک تجارتی کمپنی ’’نکاش برادرز‘‘ نے ’’خان العمدان‘‘ کو اسرائیلی حکام سے کرائے پر حاصل کر لیا ہے جس کے بعد فلسطینیوں کی قانونی چارہ جوئی کی کوششیں اور بھی تیز ہو گئی ہیں۔
تاریخی مقام کو یہودیانے کی کوشش
‘’’نکاش برادرز‘‘ نے اجرت پر یہ عمارت حاصل کرنے کے بعد اس کی دو منزلوں کے 50 کمروں کو ایک سیاحتی ہوٹل کا درجہ دے دیا ہے جس کے نتیجے میں عکا کی یہ عرب اور مسلمان تشخص کی علامت عمارت کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس عمارت میں ایک بڑا گھڑیال ٹاور موجود ہے جو عثمانی خلیفہ عبدالحمید دوم کی یاد گار ہے۔ یہ ٹاور 1906ء میں بنایا گیا۔
فلسطینی مورخ غسان وشاح نے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے ’’خان العمدان‘‘ کی تاریخی اور اسلامی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’خان العمدان‘‘ کو عکا میں خلافت عثمانیہ کے عروج اور ان کی فن تعمیر کی حسین یادگار سمجھا جاتا ہے۔ اس کے اطراف میں آباد فلسطینی شہریوں کی تعداد 5 ہزار سے زائد ہے۔
وشاح نے مزید کہا کہ صیہونی حکام نے اسرائیلی ریاست کے سیکیورٹی ادارے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت فلسطین کے تاریخی مقامات کے وجود کو مٹا رہے ہیں ’’خان العمدان‘‘ اور اس کی بندرگاہ کا نام تک تبدیل کر دیا گیا۔ اس بندرگاہ کا نام ’’عیسیٰ العوام‘‘ تھا جو اب تبدیل کرکے عبرانی میں ’’زئیو‘‘ کر دیا گیا ہے۔عیسیٰ العوام ایک مسلمان عرب سپاہی تھے جنہوں نے سلطان صلاح الدین ایونی کے لشکر کے ساتھ مل کر صلیبیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا اور یہاں پر جام شہادت نوش کیا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی مورخ کا کہنا ہے کہ اسرائیل عکا شہر میں آبادیاتی توازن تبدیل کرکے عکا کے فلسطینیوںکو وہاں سے بے دخل کرنے ساتھ ساتھ وہاں پر صیہونیوں کی آبادی بڑھانا چاہتا ہے۔
عرب تاجروں کی غفلت
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عکا کی تاریخی یاد گار ’’خان العمدان‘‘ کو اسرائیلی کمپنی کے ہاتھ میں چلے جانے سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ فلسطین کے تاریخی مقامات کے تحفظ کے حوالے سے عرب تاجر کھلی غفلت کے مرتکب ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی بھی تاریخی آثار کو بچانے اور ان کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہے۔
وشاح کا کہنا تھا کہ ’’خان العمدان‘‘ پر اسرائیلی قبضہ اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے کیونکہ یہ جگہ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے سائنس وثقافت ’’یونیسکو‘‘ کے ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہے اور اسے خلافت عثمانیہ کی یادگار قرار دیا گیا ہے۔
عکا کے ایک عالم دین اور نکاح خواں محمد سالم نے ’’ٹویٹر‘‘ پر پوسٹ کی گئی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’’خان العمدان‘‘ پر اسرائیلی کمپنی کا غاصبانہ قبضہ تاریخی عمارت پر صیہونی قبضہ مضبوط کرنے کی سازشوں کا حصہ ہے۔ اسرائیل اور اس کے نجی ادارے مل کر عکا کو فلسطینی وجود سے خالی کرنا چاہتے ہیں۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)