غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے معاشی اور مالی کمی کے لیے ایک نیا راستہ تلاش کیا ہے۔ یہ نیا راستہ ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوین ہے۔
حال ہی میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے زندہ اور آزاد ضمیر انسانیت سے بٹ کوین جیسی ڈیجیٹل کرنسیوں کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کاروں کی مدد کی اپیل کی۔
اگر آپ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں ہونے والے تبدیلیوں سے خود کو آگاہ رکھتے ہیں تو بٹ کوائن کا نام آپ کے لئے یقینا نیا نہیں ہوگا۔ بٹ کوائن کے حوالے سے جھوٹی سچی خبریں اور معلومات انٹرنیٹ پر عام ہیں جن کی وجہ سے عام انٹرنیٹ استعمال کرنے والے یہ نہیں سمجھ پاتے کہ اصل میں بٹ کوائنز ہیں کیا اور یہ کہاں سے آتے ہیں؟ چونکہ دھوکے بازی انٹرنیٹ پر بے حد عام ہے، اس لئے پہلی بار جب بٹ کوائن کے حوالے سے پڑھا جاتا ہے تو یہ بظاہر ایک دھوکہ ہی محسوس ہوتا ہے۔
ہم اس مضمون میں بٹ کوئن کے حوالے سے قارئین کے ذہنوں میں موجود سوالات کے آسان زبان میں جوابات دینے کی کوشش کریں گے اور بتائیں گے کہ بٹ کوائنز ایک حقیقت ہے یا دھوکہ۔ پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ بٹ کوائن پروٹوکول اور کلائنٹ دونوں ہی اوپن سورس ہیں، یعنی ان کا سورس کوڈ سب کے لئے دستیاب ہے۔ یہ پروٹوکول بہترین کرپٹو گرافی پر مبنی ہے جس میں تمام ہی ٹرانزیکشنز انتہائی محفوظ ہوتی ہیں۔
بٹ کوائنز کا تصور پہلی بار2008ء میں ایک پیپرجسے ’’ستوشی ناکا موتو ‘‘ کے فرضی نام سے لکھا گیا تھا، کرپٹو گرافی کے لئے مخصوص ایک میلنگ لسٹ پر پیش کیا گیا۔ اس پیپر میں ستوشی ناکاموتو نے اسے پیئر ٹو پیئر الیکٹرانک کیش سسٹم قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ اس نظام پر گزشتہ دو سال سے کام کررہا ہے۔
القسام کی دعوت
حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے منگل کی شام عالمی برادری سے بٹ کوائن اور دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں میں فلسطینی تحریک مزاحمت کی مدد کی اپیل کی۔
القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے ایک ٹویٹ میں اور ٹیلی گرام پر ایک بیان میں کہا کہ فلسطینی تحریک مزاحمت کی حمایت کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق کے منصفانہ حصول کے لیے کوشاں احرار عالم کو بٹ کوین کو فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی مدد کو ذریعہ بنانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ عن قریب القسام بریگیڈ بٹ کوین کا مالیاتی میکنزم جاری کرے گی تاہم انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
کیا یہ ذریعہ کامیاب ہوگا؟
ڈیجیٹل کرنسیوں کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کاروں کی معاونت کی کامیابی کس حد تک یقینی ہے؟ رپورٹ میں یہی سوال فلسطینی اقتصادی ماہرین اور ڈیجیٹل کرنسیوں میں ٹریڈنگ کرنے والے ماہرین کے سامنے رکھا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آیا ڈیجیٹل کرنسیوں کے ذریعے ہونے والے کاروباریا مالی معاونت سے فلسطینی مزاحمت کاروں کی مدد ممکن ہے۔
اقتصادی امور کے تجزیہ نگار محمد ابو جیاب نے کہا کہ بٹ کوین اور دیگر ڈیجیٹل کرنسیوں کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کاروں کی مدد کرنے والوں کے خلاف تعاقب کے خطرات مزید بڑھ جائیں گے تاہم اس کی ٹریڈنگ کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کاروں کی مدد ممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈیجیٹل کرنسیاں لامرکزیت کی حامل ہیں اور ان کا کوئی خاص ٹھکانہ نہیں۔ کوئی بنک یا کوئی کاروباری ادارہ ان کا مالک یا محافظ نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ابو جیاب نے کہا کہ ڈیجیٹل کرنسیوں کا کاروبار روز مرہ کی بنیاد پر بڑھ رہا ہے۔ اس وقت اس کی سالانہ تجارت 61 ارب ڈالر جب کہ یومیہ چھ ارب ڈالر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر امداد دینے والے چاہیں تو وہ غزہ کے محصورین کے لیے بٹ کوین اور دیگر کرنسیوں کی مدد سے تعاون کرسکتے ہیں ۔ اس وقت ایک بٹ کوین سکے کی مالیت 3460 ڈالر ہے۔
کیا اس میدان میں رکاوٹیں بھی ہیں؟
کسی مرکزیت کے بغیر چلنے والی ڈیجیٹل کرنسیوں کا لین دین آن لائن طریقے سے ممکن ہے اور اسے کوئی ملک یا حکومت نہیں روک سکتی۔ امریکا سمیت بعض دوسرے ملکوں نے بٹ کوین کے لین دین کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
تجزیہ نگار ابو جیاب کے مطابق جب فلسطینی اتھارٹی فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی مالی مدد روک دےگی اور مزحمتی قوتوں کے دیگر ذرائع آمدن بھی مفقود ہوجائیں گے تو ان کے پاس متبادل کی تلاش کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچے گا۔
ابو جیاب نے کہا کہ ڈیجیٹل کرنسی کا لین دین اور استعمال کا مقصد بین الاقومی بنکنک پلیٹ فارم تشکیل دینا ہے۔ یعنی یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے ماہانہ کروڑوں ڈالر حاصل کیے جاسکے ہیں۔ ایک دوسرے تجزیہ نگار رائد رشید نے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کا ڈیجیٹل کرنسیوں کے استعمال کا اعلان قابل ستائش ہے مگر یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
( بشکریہ مرکز اطاعات فلسطین)