لاہور (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنرچوہدری غلام سرور نے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین پاکستان کے لئے بنیادی اور اولین ترجیح رکھتا ہے اور کشمیر کی طرح فلسطین بھی خارجہ پالیسی کا محور ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے تعلقات کا کوئی امکان نہیں، ان مسائل کو کیسے مس ہینڈل کیا جا سکتا ہے، یہ ہماری خارجہ پالیسی کا محور ہیں، نہ ہی کسی چینل سے کوئی رابطہ ہوا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ عوامی امنگوں کو پس پشت ڈال کر کوئی قدم اٹھایا جائے۔ اس سے پہلے بھی یہ افواہیں گردش کرتی رہی ہیں، نئے پاکستان سے یہ مراد نہیں کہ ہم اصولوں کی قربانی دیکر معاشی مفادات حاصل کریں۔ وزیراعظم بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اب کسی قیمت پہ پاکستان اپنی حیثیت اور طاقت کو دوسروں کے مفادات کیلئے استعمال نہیں کریگا، نہ ہم دنیا میں ہونیوالے مظالم پہ خاموش رہینگے۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق چوہدری محمد سرورنے پاکستان اور عرب ممالک کے تعلقات سمیت عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور پاکستان پر پڑنے والے اثرات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ہر گز ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ پاکستان کسی عرب دوست ملک کے کہنے پر یا دباؤ میں آ کر اسرائیل کے ساتھ سفارتکاری یا دوستانہ تعلقات یا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچے بھی ، ایسا سوچنا بھی عوامی امنگوں کے قتل کے مترادف ہے ۔
ان کاکہنا تھا کہ پاکستان جس خطے میں واقع ہے، وہاں اب قطر بھی ایک اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ وسیع تر میدان ہے، سفارتی محاذ پر تحریک انصاف کی حکومت مسلسل کامیاب ہو رہی ہے، جس کا کریڈٹ موجودہ حکومت اور آرمی چیف کو جاتا ہے، جو سفارتی تنہائی کو ختم کرچکے ہیں۔ امیر قطر نے وزیراعظم کو پیش کش کی ہے کہ وہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات میں پاکستان کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے تعلقات کی تجدید ہوئی ہے۔ اربوں ڈالر پاکستان کو ملے ہیں۔ آئندہ ماہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان آرہے ہیں۔ رواں برس کے اختتام سے قبل امریکی صدر ٹرمپ کا دورہ بھی متوقع ہے۔ ایران اور عراق کے ساتھ بھی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ چین نے بھی پاکستان کی نئی قیادت کے ساتھ گرم جوشی ظاہر کی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ موجودہ کشیدگی میں عمران خان کے دورہ سے قطر کو سفارتی سپورٹ ملی ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ فلسطین کے مسئلے پہ پاکستان کسی کے ہاتھوں مجبور ہو جائے۔ کسی دوست ملک کا دورہ کسی ذاتی مفاد کیلئے نہیں تو یہ بات بھی درست نہیں کہ پاکستان اپنی عسکری، سفارتی یا سیاسی حیثیت کے ذریعے بارگین کر رہا ہے۔
چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ جس طرح کشمیر پہ موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اسی طرح فلسطین میں ہونیوالے مظالم جب تک جاری ہیں، اسرائیل سے تعلقات کا کوئی امکان نہیں، ان مسائل کو کیسے مس ہینڈل کیا جا سکتا ہے، یہ ہماری خارجہ پالیسی کا محور ہیں، نہ ہی کسی چینل سے کوئی رابطہ ہوا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ عوامی امنگوں کو پس پشت ڈال کر کوئی قدم اٹھایا جائے۔ اس سے پہلے بھی یہ افواہیں گردش کرتی رہی ہیں، نئے پاکستان سے یہ مراد نہیں کہ ہم اصولوں کی قربانی دیکر معاشی مفادات حاصل کریں۔ وزیراعظم بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اب کسی قیمت پہ پاکستان اپنی حیثیت اور طاقت کو دوسروں کے مفادات کیلئے استعمال نہیں کریگا۔ نہ ہم دنیا میں ہونیوالے مظالم پہ خاموش رہیں گے۔ اب تو فلسطینیوں کیلئے امریکہ اور یورپ میں بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں، ظلم کو زوال ہے، چاہے کشمیر میں ہو، چاہے فلسطین میں۔ عمران خان کے خلاف بہت پروپیگنڈہ ہوا ہے، یہودی لابی کے طعنے دیئے گئے ہیں، ایجنٹ کہا گیا، اگر یہ سچ ہوتا یا ہمارے اندر کوئی کمزوری ہوتی تو کچھ نہ کچھ تو سامنے آتا، اب تو حکومت میں آچکے ہیں، تمام تر حساس ایشوز کو وزیراعظم خود ہی ایڈریس کر رہے ہیں، آئندہ بھی کرینگے، جو لوگ مذہب کی آڑ میں یہ الزامات لگا رہے ہیں، انہیں مایوسی ہوگی، عمران خان اس وقت پورے عالم اسلام میں عزت اور اعتماد حاصل کرچکے ہیں، پوری اسلامی دنیا میں انہیں ایک مقام حاصل ہے، دنیا کے کونے کونے سے مسلمان ریاستوں، حکومتوں اور اہم شخصیات نے انہیں تہنیتی پیغامات بھیجے ہیں۔
گورنر پنجاب نے ایک خبر رساں ادارے کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا ویژن ہے کہ وہ ملک میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ خلوص نیت، مکمل و مربوط منصوبہ بندی کے ذریعے ملک کو اقتصادی اور معاشی طور پر مستحکم اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ یہی خواب ہے نئے پاکستان کا، جسے شرمندہ تعبیر کرنا عمران خان کا کام ہے۔ پاکستانی معیشت اور اقتصادیات کو بہتر بنانے کے لئے وزیراعظم اور ان کے رفقاء لگن اور جذبے سے دن رات کام کر رہے ہیں، دورہ قطر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بامقصد وزٹ ہے، غیر ضروری تنقید سے گریز کیا جانا چاہیئے۔
چوہدری محمد سرورکاکہنا تھا کہ وزیر اعظم سے متعلق من گھڑت خبرین پھیلانے والوں اور ان کے بارے میں من گھڑت باتیں بنانے والوں کو صرف یہی کہوں گا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ملک کا پیسہ چوری کیا اور اب وزیر اعظم کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ وزیر اعظم کا ملک سے باہر جانا اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کے معاہدے کرنا حکومتی فرائض و ذمہ داریوں کا حصہ ہے تاہم اس پر اعتراض کرنے اور کشکول پھیلانے کی باتیں کرنا احمقانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ چوہدری غلام سرور کا واضح اور سرکاری موقف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب ذرائع ابلاغ پر پاکستان سے ایک یہودی شہری کے اسرائیل کی طرف سفر کرنے کی خبریں بھی گردش میں ہیں اور اس سے قبل غاصب صہیونی حکومت اسرائیل کے ناجائز دارلحکومت تل ابیب سے پرواز کرکے آنے والا طیارہ عمان کے بعد اسلام آباد ہوائی اڈے پر دس گھنٹے قیام کے بعد واپس اسرائیل لوٹ گیا تھا اور اس کے فوری بعد سابق فوجی جرنل سمیت خاتون رکن قومی اسمبلی کی جانب سے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے حق میں بیانات بھی سامنے آئے تھے۔