غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے عوام ایک طرف اسرائیلی ریاست کے مسلط کردہ جان لیوا محاصرے کا شکار ہیں اور دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی کارروائیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ ایسے میں غزہ کی پٹی کے تمام شہری کسی نا کسی طرح متاثر ہو رہے ہیں مگر سب سے زیادہ مشکلات غزہ کے شیر خوار بچوں کو درپیش ہیں جن میں سے بعض کی زندگیاں خطرے سے دوچار ہیں۔
غزہ کی پٹی میں شیر خوار بچوں اور ان کے خاندان کی مشکلات کا اندازہ لگانا ہو تو ایک 13 سالہ بچی ’’روا‘‘ کے مصائب سے لگایا جاسکتا ہے۔ غربت، تنگ دستی اور امراض نے ننھی روا کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق روا کا جگر تلف اور دل میں سوراخ ہے اور کئی شریانیں بند ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک موروثی بیماری’’الاجین‘‘ کا بھی شکار ہے جس کے نتیجے میں اس کی نشو نما رکی ہوئی ہے۔ ہاضمہ خرا اور جلد انتہائی نازک ہے۔
غزہ کی پٹی میں مقامی فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ رام اللہ اتھارٹی اور اسرائیل کی مسلط کردہ پابندیوں کے نتیجے میں ہزاروں مریضوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ گزشتہ چار سال سے فلسطینی اتھارٹی اور بارہ سال سے اسرائیل کی پابندیوں نے غزہ کے عوام بالخصوص بیماروں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ رام اللہ حکومت نے غزہ کے لاکھوں افراد کو سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ غزہ کے عوام کے علاج کی سہولیات سلب کردی گئی ہیں اور غزہ کے اسپتالوں کو ادویات تک روک دی گئی ہیں۔
مشکلات میں مسلسل اضافہ
غزہ کی پٹی میں رہائش پذیر عادل الحمارنہ کے گھر کو دیکھا جائے تو اس کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ اپنے بوسیدہ اور ٹوٹے پھوٹے مکان کی مرمت کرسکیں یا بچی کا علاج کراسکیں۔
روا کی ماں کا کہنا ہے کہ میری بیٹی کی حالت مسلسل بگڑتی جا رہی ہے۔ وہ دودھ اور ادویات پر زندہ ہے۔ اب ہم اس کا بیت المقدس کےالمقاصد اسپتال میں علاج کے اخراجات اُٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ بہت دکھ اور غم سے دوچار کرنے والی کیفیت ہے مگر ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں۔ بچی کی بیماری مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی جلد نازک ہورہی ہے اور ڈاکٹروں نے علاج سے ہاتھ اُٹھا دیے اور کہا ہے کہ اس کی زندگی اور موت اب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مقامی اسپتالوں میں اس کے علاج کے لیے کوئی انتظام نہیں ہوسکتا۔
ایک سوال کے جواب میں روا کی ماں نے کہا کہ اس بیٹی کو بیماریاں پیدائش کے فوری بعد لگ گئی تھیں۔ وہ باربار ڈاکٹروں کے پاس اور اسپتالوں کے چکر لگاتے رہے۔ انہیں غزہ سے باہر اسپتالوں میں علاج کے لیے جانے کو کہا گیا ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ روا کی بیماری انوکھی نوعیت کی ہے جس میں زیادہ تر موروثی اثرات ہیں۔
میڈیکل رپورٹس
مقامی سطح پر روا کے والدین نے اس کا ہرممکن علاج کرانے کی کوشش کی۔ وہ اسپتالوں کے چگر لگا کر تھک گئےہیں۔ انہوں نے اس پورے عرصے کے دوران روا کے علاج کے حوالے سے میڈیکل رپورٹس کا ایک پلندہ جمع کر رکھا ہے۔ ہرنئی جگہ پر اس کی ایک نئی بیماری سامنے آتی ہے اور اہل خانہ اس کے علاج کے لیے اُٹھنے والےاخراجات پورے کرنے سے عاجز آگئے ہیں۔
بچی کے والد عادل الحمارنہ کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی مستحکم انداز میں گذر رہی تھی مگر روا کی پیدائش کے بعد ان کے گھریلو حالات تیزی کے ساتھ نا مساعد ہوتے گئے۔ وہ بیٹی کے علاج سے بھی قاصر آگئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں ایک عمارت میں معمولی سیکیورٹی گارڈ ہوں جس کا معاوضہ بہت کم ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا ہوں۔ المقاصد اسپتال تک آنےجانے کے بھی اخراجات بہت زیادہ ہیں اور اب میں اس سفرکا متحمل نہیں ہوسکتا۔
روا کے بڑے بھائی 16 سالہ محمود کا کہنا ہے کہ ان کی چھوٹی ہمشیرہ رات دن روتے گذارتی ہے۔ وہ اس کے پاس ہوتا ہے مگر اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ (بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین )