مقبوضہ بیت المقدس (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) رواں سال کو شروع ہوئے ابھی چند دن ہی گذرے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی نے انتقامی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ نئے سال کے آغاز پرفلسطینی اتھارٹی نے سرکاری سطح پر ایک حکم جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ بیت المقدس یا اندرون فلسطین کا کوئی شہری مقبوضہ مغربی کنارے میں جائیداد کرائے پرنہیں لے سکتا۔ تاہم اگر ایسا کرنا ناگزیر ہو تو اسے پہلے فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت سیکیورٹی اداروں کو اس کے لیے اجازت حاصل کرنا ہوگی۔ اس کی کچھ شرائط ہوں گی اور جائیداد خریدنے یا اجرت پرلینے والوں کو وہ شرائط تسلیم کرنا ہوں گی۔
اس فیصلے کو مفاد عامہ کا نام دیا گیا۔ حکم نامے میں کہا گیا اگر اسرائیلی شہریت رکھنے والا کوئی شخص غرب اردن میں جائیداد خرید کرے یا اجرت پرحاصل کرے گا اسے مقامی حکومت کے ڈائریکٹر کے عہدے کےمجاز افسر سے اجازت لینا ہوگی۔ فلسطینی اتھارٹی کے انٹیلی جنس ڈائریکٹر یا اس کے مساوی عہدے کا کوئی سیکیورٹی افسر اس کی اجازت دے تو املاک اجرت پر لی جاسکیں گی۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں نے رام اللہ اتھارٹی کے اس فیصلے پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے کسی اقدام کا کوئی آئینی جواز نہیں۔ فلسطینی اتھارٹی ملک کے دوسرے شہروں کے باشندوں پر قدغنیں لگانے کے لیے ایسا کررہی ہے۔
تباہ کن فیصلہ
فلسطینی تجزیہ نگار راسم عبیدات نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے القدس کے باشندوں کو دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقوں میں القدس کے باشندوں کو جائیدادیں کرائے پر لینے پر پابندی تباہ کن فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے فلسطینی شہریوں کے اقتصادی اور سماجی زندگی پر بتاہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے یہ پابندی ایک ایسے وقت میں لگائی گئی ہے جب دوسری طرف اسرائیلی ریاست نے القدس کے باشندوں پر غیرضروری دباؤ ڈالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ القدس کے باشندوں پر اسرائیلی ریاست نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ القدس کے باشندوں پر کمر توڑ ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں۔ القدس میں ان پر جائیدادوں کی خریدو فروخت پر پابندیاں عائد ہیں جس کے نتیجے میں القدس کے باشندے سخت معاشی اور سماجی دشواریوں کا سامنا کررہے ہیں۔
عبیدات نے مزید کہا کہ اسرائیل اس لیے القدس کے باشندوں پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ وہ شہر چھوڑ دیں۔ اسرائیلی ریاست القدس کے باشندوں کو غیر ریاستی باشندے قرار دے کر ان پرعرصہ حیات تنگ کر رہا ہے۔
بیت المقدس کے باشندے غیر ریاستی
فلسطینی قانون دان اور تجزیہ نگار حمزہ قطنیہ نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے القدس کے باشندوں کو غیر منقولہ جائیداد اجرت پردینے پر پابندی لگانا فکری ویژن کی پراگندگی کی علامت ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کیسے القدس کے باشندوں کو کسی دوسرے ملک کے شہری قرار دے سکتی ہے۔ ایک طرف پورے فلسطینی کا القدس کو فلسطین کا دارالحکومت بنائے جانے پر اتفاق ہے اور دوسری طرف فلسطینی اتھارتی عملی طور پر فلسطینیوں کے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کہ دوسری جانب امریکا نے فلسطینیوں کے حقوق کے استحصال کے لیے بندر بانٹ کا نیا پلان تیار کیا ہے۔ امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کر ’’صدی کی ڈیل‘‘ کی سازش کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ایسے میں القدس کے باشندوں کے لیے غرب اردن کے علاقے میں قدغنیں عائد کرنا امریکا اور اسرائیل کے نام نہاد امن منصوبے میں معاونت کے مترادف ہے۔ (بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین )