واشنگٹن (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) چار جنوری 2019ء امریکی کانگریس کی تاریخ کا پہلا دن تھا جب ایک فلسطینی نژاد سمیت دو تارک وطن مسلمان خواتین نے قرآن پاک پر کانگریس کا حلف اُٹھایا۔
روز نامہ قدس کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اس موقع پر فلسطینی ثقافت کی ایسی خوبصورت جھلک دیکھنے کو ملی جس نے پور ی دنیا کے میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔
رپورٹ کے مطابق فلسطینی نژاد رشیدہ طلیب نے گذشتہ برس نومبر میں کانگریس کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر حصہ لیا اور پہلے فلسطینی مسلمان خاتون رکن کانگریس مقرر ہوئیں۔
چار جنوری دو ہزار انیس کو رشیدہ طلیب نے کانگریس کی رکنیت کی حلف برداری تقریب میں شرکت کی اور دستور پرحلف اٹھایا۔ اس نے حلف برداری کی تقریب میں قرآن پاک بھی اُٹھا رکھا تھا اس کے ساتھ ساتھ اس نے کانگریس کے ارکان میں قرآن پاک کے نسخے تقسیم بھی کیے۔
امریکی ریاست مشیگن سے کانگریس رکن منتخب ہونے والی فلسطینی نژاد رشیدہ طلیب نے امریکی کانگریس کا رکن بننے کے باوجود فلسطینی قومی لباس پہن کریہ پیغام دیا کہ وہ اپنے اصولوں، ثقافت اور قومی تشخص کو فراموش نہیں کرسکتیں۔
کانگریس کے اندر کھڑی ہو کر رشیدہ طلیب نے امریکی حکومت اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کی شدید مذمت کی ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ فلسطینیوں کے معاملے میں نسل پرستی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
کانگریس کے اجلاس میں فلسطینی قومی لباس زیب تن کرنے پر فلسطین، عرب اور دوسرے ممالک کی خواتین کی طرف سے رشیدہ طلیب کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور ان کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا۔
امریکی سماجی کارکن ھیلینا کوبین، قانون دان ھالہ عاھد، صحافیہ سلمیٰ الجم، دینا دکروری، مورخہ نائلہ الوعری، تجزیہ نگار سمر برغوثی اور کئی دوسری سرکردہ خواتین نے رشیدہ طیب کے مؤقف کی کھل کر حمایت کی۔
تاریخ اور فنون وثقافت
فلسطین کے قومی لباس کی تاریخ بہت پرانی ہے جو صدیوں سے فلسطینی فنون وثقافت اور تہذیب و تمدن کی علامت ہے۔ اگرچہ فلسطین میں ہرشہر کا اپنا مخصوص لباس اور فیشن ہے مگر ان پر ہونے والی نقش نونگاری مشترکہ خصوصیت سمجھی جاتی ہے۔
فلسطینی قوم کی دیگر علامتوں اور ثقافت اور تہذیب کو مٹانے کے لیے اسرائیلی ریاست نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حتیٰ کہ فلسطینی قومی لباس کے نمونوں کو چوری کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ رشیدہ طلیب نے امریکی کانگریس میں فلسطینی قومی لباس زیب تن کرکے عالمی سطح پر فلسطینی تہذیب کو زندہ کرنے کی نئی راہ ہموار ہوئی ہے۔