غزہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطین کی تحریک حماس کی تشکیل 1987 میں ہوئی تھی اور اسی وقت سے یہ تنظیم فلسطینی قوم کی حفاظت اور فلسطینیوں کے سلب شدہ حقوق کی بازیابی کے لئے مصروف عمل ہے ۔
اس تنظیم کا خیال ہے کہ غاصب صیہونی حکومت سے گفتگو اور مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس غاصب حکومت سے حقوق کی بازیابی کرنی ہے تو اس کے لئے مزاحمت کی واحد راستہ ہے ۔
تحریک حماس اپنے اسٹراٹیجک دستاویز میں واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ فلسطینی عوام کے حقوق واپس لئے جائیں گے، اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو ختم کرکے فلسطینی علاقوں کو آزاد کروانے کے لئے دفاعی طاقت میں توسیع کی جائے گی ۔
تحریک حماس نے جس وقت سے اپنی سرگرمیاں شروع کیں اس وقت اسرائیل کے غاصبانہ اقدامات کے مقابلے میں فلسطینی تحریک انتفاضہ کے اراکین اسرائیلی فوج کے حملوں کے جواب میں پتھروں کا استعمال کرتے تھے ۔
حماس نے پتھروں کو اپنا ہتھیار بنایا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے تنظیم کے ارکان نے بندوقوں کا استعمال شروع کر دیا ۔ اسرائیلی حملہ آوروں نے ایک وسیع آپریشن کرکے حماس اور دوسری مزاحمتی تنظیم جہاد اسلامی کے 400 سے زائد رہنماؤں اور عہدیداروں کو ملک بدر کرکے مرج الظہور نامی علاقے بھیج دیا جس کے بعد حماس نے شہادت پسندانہ حملے شروع کر دیئے ۔ الاقصی انتفاضہ تحریک کا آغاز ہوا تو حماس نے مزاحمت کے طریقہ کار میں تنوع پیدا کر دیا ۔
تحریک حماس کو غزہ پٹی کے علاقے میں ناکہ بندی میں رکھا گیا لیکن اس تنظیم نے اس کے باوجود اپنے اسلحوں کے ذخائر میں اضافہ کیا اور وہیں پر گرینیڈ اور آر پی جی بنانے کا کام شروع کیا، اس طرح سے پیشرفتہ ہھتیاروں سے لیس اسرائیلی فوج کا مقابلہ کرنے کی اس تنظیم کی طاقت میں اضافہ ہوا ۔ حماس نے 2001 میں اپنا پہلا میزائل بنایا جو چار کیلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا تھا۔ حماس نے بہت تیزی سے اپنے میزائلوں کی رینج میں توسیع کیا اور اسے بڑھا 160 کیلومیٹر تک پہنچا دیا۔ اسی میزائل سے حماس نے حیفا شہر پر حملہ کیا تھا۔ حماس کی فوجی شاخ عزالدین القسام بریگیڈ نے ایک اسنائپر رائفل بنائی جو 2 کیلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتی ہے ۔
جولائی 2014 میں القسام بريگیڈ نے ڈرون طیارہ بناکر اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو حیرت میں ڈال دیا ۔ حماس نے ابابیل نامی تین ڈرون بنائے ۔ ابابیل ڈرون کے ذریعے حماس نے جاسوسی کے متعدد آپریشن انجام دیئے ۔ ایک آپریشن میں تو ڈرون طیارے نے تل ابیب میں واقع اسرائیلی وزارت جنگ کی تصاویر لے کر اپنے کنٹرول روم ارسال کیں۔
سرنگیں ایک اسٹراٹیجک ہتھیار :
القسام بريگیڈ اپنے سیکورٹی وسائل اور ذرائع کی انواع و اقسام میں اضافہ کرتا جا رہا ہے ۔ اسرائیلی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے اس نے سرنگوں کو ایک بڑے کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ 2001 میں حماس نے پہلی بار سرنگوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ۔ حماس کے فوجیوں نے غزہ پٹی کے جنوب میں واقع ترمید نامی اسرائیلی فوجی چیک پوسٹ کے نیچے سرنگوں کے ذریعے پہنچ کر وہا بم نصب کیا اور پھر بم کا دھماکہ کرکے چیک پوسٹ کو تباہ کر دیا ۔ اس کے بعد بھی حماس نے فوری طور پر بنائی جانے والی سرنگوں کے ذریعے اسرائیلی فوجیوں پر متعدد حملے کئے ۔ ایک حملے میں اسرائیلی فوجی گلعاد شالیط کو قیدی بنا لیا تھا ۔
سرنگ ٹکنالوجی پر حماس نے مسلسل کام کیا اور آج کہا جاتا ہے کہ غزہ پٹی، زمین کے اوپر ہونے کے ساتھ ہی زمین کے نیچے بھی پوری طرح آباد ہے ۔ زیر زمین پورا علاقہ آباد ہے جس میں حماس اور جہاد اسلامی تنظیموں کے اہم ٹھکانے ہیں ۔ اسرائیل سے ہونے والی جنگوں میں فلسطینی تنظیموں نے متعدد بڑے آپریشن انہیں سرنگوں کی مدد سے کئے جن میں چار آپریشن بہت مشہور ہیں ۔ ان آپریشنز سے اسرائیل کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ۔
سمندری ہتھیار :
حماس کی فوجی شاخ القسام بریگیڈ نے سمندر کو بھی اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے اہم محاذ کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ نومبر 2000 فلسطینی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کی ایک جنگی کشتی کو دھماکے سے اڑا دیا ۔ حمدی نسیو نامی فلسطینی نوجوان نے شہادت پسندانہ حملہ کیا اور اسرائیلی جنگی کشتی کے پاس اپنی چھوٹی سی کشتی لے جاکر دھماکہ کر دیا ۔
اس کے بعد مارچ 2004 میں حماس نے نیول یونٹ قائم کی ۔ اس یونٹ نے دیر البلح شہر کے مغرب میں تل القطیف نامی صیہونی کالونی پر حملہ کیا جس میں تین صیہونی فوجی ہلاک ہوئے ۔
حماس نے نیول یونٹ میں مسلسل توسیع کی اور آج حماس کے پاس یہ ایک مضبوط فورس ہے ۔ زکیم نامی فوجی آپریشن میں اس یونٹ نے اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ 2014 میں جب اسرائیل نے غزہ پٹی پر حملہ کیا تو 24 گھنٹے بعد نیول یونٹ نے اسرائیل پر وسیع حملہ کیا ۔ اس یونٹ نے اسرائیل کے زکیم نامی فوجی بیس پر حملہ کیا جس میں متعدد اسرائیلی فوجی ہلاک اور ایک میرکاوہ ٹینک تباہ ہوا تھا ۔
اس حملے کے بعد اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف بینی گانٹیس نے کہا تھا کہ یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہمارا مقابلہ شجاع جنگجوؤں سے ہیں ۔ اگر کوئی فوجی ٹینک کے پیچھے دوڑ کر اس پر بم نصب کر دے تو وہ واقعی بہت شجاع ہے ۔
میڈیا اور تبلیغی ہتھیار :
حماس نے میڈیا پر بھی خاصی توجہ دی ہے ۔ حماس نے میڈیا کے ذریعے سے مزاحمت کی ثقافت کی تبلیغ کی ۔ میڈیا ذرائع سے حماس کے شہداء کے وصیت نامے شائع اور نشر کرتی ہے اور ساتھ ہی اسرائیل کے اندر بھی اپنا پیغام بھیجتی ہے ۔ حماس نے اپنے فوجی آپریشن کے ویڈیو میڈیا ذرائع پر جاری کر دی جس سے اسرائیل کے اندر ہنگامہ مچ گیا ۔
اب حماس اپنی میڈیا طاقت میں توسیع کرکے اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ وہ اسرائیل سے نفسیاتی جنگ بھی کامیاب سے لڑ رہی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں اسرائیل کا فلسطینی تنظیموں سے جو تصادم ہوا اس میں حماس نے اسرائیلی فوج کی ایک بس کو بڑی کامیابی سے میزائل سے نشانہ بنایا اور اس کی ویڈیوگرافی بھی کی ۔ اس حملے کی ویڈیو میڈیا چینلز پر جب نشر ہوئی تو اس سے اسرائیل کے اندر عوام ہی نہیں بلکہ اسرائیلی حکام بھی سکتے میں پڑ گئے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا تھا کہ حماس کے میزائلوں میں پوری دقت سے اپنے ہدف کو تباہ کرنے کی توانائی بڑھ گئی ہے ۔
حماس نے میڈیا کی سطح پر اسرائیل کو تب مزید حیرت میں ڈال دیا جب اس نے غزہ کے خان یونس شہر کے نزدیک در اندازی کرنے والی اسرائیلی اسپیشل فورس کی ٹیم کی تصاویر جاری کر دیں ۔ اسرائیل کا یہ خفیہ آپریشن تھا اور اسرائیلی فوجی، فلسطینیوں کے بھیس میں یہ آپریشن کرنے گئے تھے لیکن ان کا پورا منصوبہ حماس کی نظر میں آ گیا اور ٹیم میں شامل فوجیوں کی تصاویر بھی جاری کر دیں ۔
اسی بڑی تبدیلی کو محسوس کرکے اسرائیل نے حال ہی میں جب فلسطینی تنظیموں سے تصادم شروع ہوا تو 48 گھنٹے کے اندر جنگ بندی کر لی اور اس کے لئے اس نے مصر کی مدد مانگی۔