رام اللہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی حکومت کی ایک کمیٹی کی جانب سے ایک سرکاری دستاویز پیش کی جانے والی ہے جس میں اسرائیل سے اقتصادی خلاصی حاصل کرنے کے میکانزم کو بیان کیا گیا ہے۔
مبصرین کے نزدیک اسرائیلی قبضے کے خاتمے سے قبل یہ اقدام ’’غیر حقیقت پسندانہ اور جذباتی ‘‘ یا ناممکن ہے۔ دوسری جانب بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اقتصادی طور پر خلاصی حاصل کرنے کے فیصلے کی بھاری سیاسی قیمت چکانا ہو گی۔
رواں برس کے آغاز میں فلسطینی قومی کونسل نے تنظیم آزادی فلسطین کی مجسل عاملہ کو یہ ذمے داری سونپی تھی کہ ’’ اسرائیل کی اقتصادی پیروی سے نجات حاصل کی جائے جو پیرس پروٹوکول کے نتیجے میں سامنے آئی تھی‘‘۔ مجلس عاملہ نے حکومت کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی تھی تا کہ اسرائیل سے اقتصادی خلاصی کے حصول کے طریقہ کار اور مناسب وقت کا تعین کیا جا سکے۔
بیرزیت یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر اور اقتصادی خلاصی کا جائزہ لینے والی کمیٹی کے ایک رکن ڈاکٹر نصر عبدالکریم کے مطابق اسرائیل سے اقتصادی خلاصی کے معیشت پر تباہ کن نتائج مرتب ہوں گے کیوں کہ فلسطینی ادارے ابھی اس کے لیے تیار نہیں۔ سرحد پر فلسطینی خود مختاری کے بغیر یہ خلاصی ممکن نہیں۔ ہم وہ چیز کیسے درآمد کریں گے جس کو ہم فلسطینی اراضی میں داخل نہیں کر سکتے۔
فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے سالانہ 80 کروڑ لیٹر ایندھن خریدتی ہے جس کی مالیت 2.4 ارب اسرائیلی شیکل کے قریب ہے۔ پیرس معاہدے کے مطابق فلسطینی اراضی میں ایندھن پر ’’یکساں کسٹم ڈیوٹی‘‘ کا نظام لاگو ہوتا ہے۔ اس نظام کے تحت فلسطین میں ایندھن پر بالکل وہ ہی ٹیکس لاگو ہوتا ہے جو اسرائیل میں ایندھن پر لاگو ہے۔
عبدالکریم کہتے ہیں کہ ’’یہ خلاصی حاصل کرنے کی صورت میں درپیش مشکل کی ایک مثال ہے۔ اگر ہم نے اسرائیل کے سوا کسی سے ایندھن درآمد کرنے کا ارادہ کر بھی لیا تو کیا اسرائیل اسے قبول کر لے گا؟ کیا وہ اس کو آسان رہنے دے گا؟ کیا وہ موجودہ لاگت کے مطابق ہی ہو گا ؟ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہو گا ‘‘۔
عبدالکریم نے استفسار کیا کہ ” متبادل کی تلاش میں کامیاب ہونے تک کیا اسرائیل کے ذریعے درآمدات اور برآمدات کو روک دیا جائے گا۔ کیا فلسطینی ورکروں کو اسرائیل میں کام کرنے سے روک دیا جائے گا۔ ہم روزگار کے متبادل مواقع کہاں سے لائیں گے جب کہ بے روزگاری کی شرح 30% کے قریب بڑھ رہی ہے۔ فلسطینی پروفیسر کے مطابق فلسطینی عوام اسرائیل سے اقتصادی خلاصی کی قیمت ادا کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
معیشت کے امور سے متعلق عربی ویب سائٹ الاقتصادی کے ایڈیٹر انچیف محمد عبداللہ کی بھی یہ ہی رائے ہے کہ اقتصادی خلاصی ایک علامتی موضوع ہے جس کے جذباتی دلائل ہیں مگر اسے لاگو کرنا ناممکن ہے۔
عبداللہ کے مطابق اقتصادی خلاصی کا مطلب ہے شیکل کی کرنسی میں لین دین کی تبدیلی، اسرائیلی میں فلسطینی ورکروں کا کام سے رک جانا، اسرائیل کے ذریعے درآمدات اور برآمدات کا نہ ہونا اور اسرائیل سے توانائی اور پانی کی خرید ختم کر دینا ، سوال یہ کہ ہم متبادل کہاں سے لائیں گے؟۔
فلسطینیوں کی ضرورت کی 93% بجلی اور 85% پانی اسرائیل سے خریدا جاتا ہے۔ فلسطینی برآمدات کا سالانہ حجم ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس میں 80% رقم اسرائیل کو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اسرائیل کے ذریعے فلسطینی درآمدات کی مالیت سالانہ 3 ارب ڈالر کے قریب ہے جو فلسطین کی مجموعی درآمدات کا نصف حصہ بنتا ہے۔
عبداللہ کے مطابق ’’اقتصادی خلاصی کے اسرائیل پر منفی اثرات مرتب ہوئے تو وہ قلیل المیعاد ہوں گے اس لیے کہ اسرائیلی معیشت بہت مضبوط ہے اور اس جھٹکے کو برداشت کر سکتی ہے ، البتہ فلسطینی معیشت کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی‘‘۔
عبداللہ نے باور کرایا کہ اسرائیل کے لیے فلسطین کی حیثیت ثانوی منڈی کی ہے اور سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ اسرائیل کی مجموعی مقامی پیداوار سالانہ 380 ارب ڈالر جب کہ فلسطینیوں کی صرف 12 ارب ڈالر ہے۔
بیرزیت یونیورسٹی میں ثقافتی مطالعوں کے پروفیسر اور فلسطین کے سابق وزیر منصوبہ بندی غسان الخطیب کا کہنا ہے کہ اقتصادی خلاصی کو بتدریج اپنانے کا امکان موجود ہے یہاں تک کہ ایسے سیاسی حالات سامنے آ جائیں جو مکمل خلاصی کی اجازت دیتے ہوں۔ الخطیب کے مطابق اسرائیلی کرنسی کے استعمال میں کمی لا کر اس کی جگہ اردن کی کرنسی اور امریکی ڈالر کو کام میں لائے جانے کا امکان موجود ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’’ اسرائیلی درآمدات سے بے نیاز ہونے کا کافی حد تک امکان ہے کیوں کہ اس حوالے سے طے پائے گئے سمجھوتے بیرون ملک سے درآمدات کو نہیں روکتے۔ مثلا چند برس پہلے فلسطین میں صرف اسرائیلی سیمنٹ استعمال ہو رہا تھا جب کہ آج ہم فلسطینی ضرورت کا 50% سیمنٹ باہر سے درآمد کر رہے ہیں‘‘۔
البتہ الخطیب کے نزدیک فریقین کے درمیان دستخط شدہ معاہدوں میں موجود قانونی اور سیاسی شقوں سے خلاصی کے بغیر مکمل اقتصادی خلاصی ممکن نہیں۔
یاد رہے کہ فلسطینی وزیراعظم رامی الحمد اللہ نے کچھ عرصہ قبل ایک مقامی فلسطینی اخبار میں لکھے گئے مضمون میں کہا تھا کہ فلسطینی معیشت کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے اور وہ اسرائیل پر انحصار کو کم ترین درجے تک لانے پر قادر ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ اسرائیلی درآمدات سے مکمل بے نیاز ہونے کے واسطے فلسطینی حکومت بڑے پیمانے پر کوششیں کر رہی ہے۔ حکومت مقامی فلسطینی مصنوعات میں اضافہ کر رہی ہے اور فسلطین میں بیرونی سرمایہ کاری کے منصوبوں کو ترقی دے رہی ہے۔
اس وقت مغربی کنارے کے 70% سے زیادہ علاقے پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور وہ اس کے اندرون اور بیرون نقل و حرکت کو کنٹرول کر رہا ہے۔ لہذا اس صورت حال میں اسرائیل سے مکمل اقتصادی خلاصی حاصل کرنے سے قبل سیاسی خلاصی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔