کراچی (اسٹاف رپورٹر) تحریک اسلامی حماس کے مرکزی رہنما اور حماس کے بین الاقوامی اور سیاسی ونگ کے انچارج اسامہ ہمدان نے کہا ہے کہ فلسطین کا دفاع پاکستان کا دفاع ہے ان خیا لات کا اظہار انہوںنے فاران کلب میں منعقدہ انٹرنیشنل فلسطین کانفرنس سے
ریکارڈڈ ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے کہ میں اپنے پاکستانی بھائیوں سے گفتگو کر رہا ہوں ۔وہ لوگ جو ہمیشہ اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کرتے رہے ہیں اور فلسطینی کازکی حمایت کی ہے ۔ اور الحمد اللہ یہ ہمارے لئے اطمینان کی بات ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان فلسطین کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں ۔میں اپنی تقریر کا آغاز اپنے فلسطین فاؤنڈیشن کے بھائیوں کے شکریہ سے کرتا ہوں اور انکی تمام کاوشات جو فلسطین اور فلسطینی کاز کیلئے کی جارہی ہیں انکا شکرگزار ہوں اور اس کانفرنس کے انعقاد پر جو کہ فلسطینی کاز کیلئے مددگار ہے۔میں اپنی تقریر میں چار نکات کا ذکر کرونگا۔ سب سے پہلا الاقصیٰ اور القدس ہے، دوسرا غزہ کی صورتحال ، تیسرا نکتہ فلسطین قوم کے مستقبل کے اہداف اور چوتھا نکتہ پاکستانی عوام سے ہماری توقعات اور پاکستانی بھائی فلسطینی کاز کیلئے کس طرح کام کرسکتے ہیں۔ الاقصیٰ کے بارے میں سب لوگ جانتے ہیں کہ پچھلے دس سال سے اسرائیل کو شش کررہا ہے کہ مسجد الاقصیٰ کو مسمار کردے ۔سینکڑوں فٹ کی سرنگیں مسجد الاقصیٰ کے نیچے کھود دی گئی ہے اور ان سرنگوں کچھ ہوتا ہے تو مسجد الاقصیٰ مسمار ہو سکتی ہے وہ اس کو مسمار کرکے زمین حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرسکیں جو کہ سب جانتے ہیں ہیکل سلیمانی کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے اسرائیلی یہ منصوبہ بناچکے ہیں کہ مسجد الاقصیٰ کے مشرقی حصے پر قبضہ کرلیں ۔وہ اس جگہ پر تعمیرات شروع کرنا چاہتے ہیں اور پچھلے دس سال میں وہ تمام اہم زیر زمین سرنگیں مسجد الاقصیٰ کے نیچے بنا چکے ہیں تاکہ اگر مسجد کو کوئی نقصان پہنچے تو مسلمانوں کو اسکی تعمیر نو سے روکا جاسکے ان سب کے باوجود آپکے فلسطینی بھائیوں کی جانب سے بھر پور کو شش کی جارہی ہے کہ مسجد الاقصیٰ کو یہودیوں کی جانب سے پہنچائے جانے والے نقصانوں کو تعمیر کیا جائے ۔اس سلسلے میں مصلیٰ مروان کو دوبارہ تعمیر کیا جاچکا ہے اسرائیل کی مخالفت کے باوجود آپکے فلسطین میں موجود بھائی ہر ممکن طریقے سے مسجد الاقصیٰ کی حفاظت کی کوشش کرتے ہیں ایک اور مسئلہ جو ہیں درپیش ہے وہ اسرائیل کی جانب سے مسجد الاقصیٰ کے اطراف ہزاروں مکانوں کی تعمیر کے ذریعے یہودیوں کی آبادکاری ہے اورریہ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ یہودیوں کو وہاں لاکر بسانا چاہتے ہیں تاکہ القدس کی آبادکاری کا تناسب تبدیل کرکے اس 90%یہودی آبادی اور 10%سے کم فلسطینی آبادی کی مملکت میں تبدیل کردیا جائے تاکہ ساری دنیا کو یہ بتایا جاسکے کہ القدس دراصل ایک یہودی اکثریتی آبادی کا شہر ہے۔ لیکن ہم یہ نہیںہو نے دیں گے اور انشاء اللہ الاقصیٰ اور القدس کو یہودی تسلط سے آزاد کروائیں گے۔ اسرائیل کی تمام تر جدوجہد الاقصیٰ کو نقصان پہنچانے کی اور تمام تر شہر پر ہمیشہ قبضہ کرنا اسکا ہدف ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو الاقصیٰ کی حفاظت کیلئے جدوجہد کرنی ہے۔ دوسرا نکتہ غزہ کی صورتحال کا تذکرہ ڈیڑھ ملین سے زیادہ آپکے بھائی اس وقت بھی غزہ میں محصور ہیں ۔وہ لوگ مکمل صبر و سکون اور اللہ پر کامل ایمان کے ساتھ صورتحال کا مقابلہ کررہے ہیں اور وہ تمام دنیا میں موجود اپنے مسلمان بھائیوں کی جانب سے امداد کے منتظر ہیں ۔غزہ کے لوگ حالت محاصرہ میں ہیں اور ضروریات زندگی کی ہرچیز غزہ میں مفتود ہیں ۔غزہ کی جنگ کے بعد غزہ کا انفرا اسٹرکچر مکمل تباہ ہو چکا ہے ۔گھر ، اسکول ، کالجز ، یونیورسٹیاں سب کچھ تباہ ہو چکا ہے اور ان سب چیزوں کی تعمیر نو کیلئے لاکھوں ٹن سیمنٹ کی ضروریات ہیں ۔وہ زیر زمین راستوں سے جو کچھ لا سکتے ہیں وہ اس کیلئے ناکافی ہے ابتدائی اور انتہائی ضروری چیزیں تعمیر کی جاچکی ہیں ۔لیکن اسکے باوجود ہمیں لاکھوں ٹن اسٹیل اور سیمنٹ کی ضرورت ہے ۔آپکے غزہ میں موجود بھائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ بقا کا واحد راستہ مزاحمت اور جہاد سے وابستگی اور فلسطین علاقوں میں موجودگی میں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ ہماری قربانیوں کو قبول کریگا اور انشاء اللہ آخری فتح ہماری ہوگی۔ لیکن غزہ میں آپکے بھائی آپکے تعاون کے طلبگار ہیں آپ ان ممالک پر دباؤ ڈالیں جو اس محاصرے کے ذمہ دار ہیں فلسطین کے پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی طاقتوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی سرحدیں فلسطینی مسلمانوں کیلئے کھولیں ۔یہ ایک ایسی چیز ہے جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے مسلمان کرسکتے ہیں ۔ لیکن ان مشکلات کا مطلب یہ نہیںکہ ہم اس محاصرے کی وجہ سے جدوجہد سے دستبردار ہو جائیں گے۔ ہم عزت کے ساتھ موت کو بہتر سمجھتے ہیں ہم شہادت کو اپنے لئے منتخب کرتے ہیں بنیت اس کے کہ محکومی اور ذلت کی حالت میں زندہ ہیں۔ غزہ کی صورتحال کا تذکرہ کرنے کا مطلب فلسطینیوں کے اہداف کا تذکرہ ہے ۔ہمارے دواہم مسائل ہیں پہلا فلسطین اور غزہ کی تعمیر نو اور یہ انتہائی اہم ہے کہ فلسطین کاز کو امریکی دباو، سے محفوظ رکھا جائے اہم فلسطین سیاسی مسائل جیسے القدس کو زندہ رکھا جائے اور جلا وطن فلسطین مسلمانوں کو انکے علاقوں میں دوبارہ آباد کیا جائے۔ فلسطینیوں کی ازسر نو آباد کاری بیرونی دباؤ بلخصوص امریکی اور اسرائیلی دباؤ کی وجہ سے ممکن نہں ہوپارہی ہے لیکن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ہم فلسطینی آباد کاری کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے یہ آبادکاری پر ہماراعتراض اس لیے ہے تاکہ ان لوگوں کو جن کا اللہ پر کمزور یقین مشکلات کی وجہ سے فلسطینی کاز چھوڑ نے سے باز رکھا جاسکے ۔الاقصیٰ اور فلسطین پراپنا حق چھوڑنے سے روکا جاسکے۔ آبادکاری پا اسرار دوسری وجہہ یہ کہ آبادکاری ہمیں ایک منزل کی جانب بڑھنے میں مدد دیںگی اور وہ ہے مزاحمت کا راستہ اور یہ دوسرا ہدف ہے کہ فلسطین اور فلسطینیوں کو بہت کچھ دیا ہے لیکن میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو ابھی اور بہت کچھ کرناہے آپکو تین جگہوں میں کام کرنا ہے پہلی فلسطینیوں کی مدد ہے فلسطینیوں کی مالی مدد ہے یہ بہت اہم ہے یہ فلسطینی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے یہ دنیا کے مسلمانوں کی فلسطینی کاز کے ساتھ وابستگی کو ظاہر کرتا ہے اور فلسطینیوں پر ظہر کرتا ہے کو وہ میدانِ جنگ میں تنہا نہں ہیں انکے بھائی انکی مدد کے لیے مود ہیں اور انکے بھائی انکی نصرت کے لیے ہر ممکن کو شش کر رہے ہیں ۔دوسرا نکتہ القدس اور الاقصیٰ کی حفاظت ہے اور اس کے لیے اس طرح کی کانفرس اور پروگرامات کا انعقاد بہت اہم ہے اور میں پر امید ہوں کہ ان کانفرنسوںکے ذریعے عملی اقدامات کے نئے آئیڈیاز جنم لین گے۔مثلا بین الاقوامی برادری پر کس طرح دباو ڈالی جائے مسلمان حکومتوں پر دباو، ڈلا جائے کہ وہ بیت المقدس کی حفاظت کے لیے کوشش کریں اور یہ انتہائی اہم پیغام دنیا تک پہنچایا جائے کہ القدس اور الاقصیٰ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا مسئلہ ہے اور اگر بالفرض فلسطینی اگر القدس کا دفاع نہ کر سکے تو انیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمان القدس کا دفاع کرنے سے موجود ہیں ۔ تیسرا نکتہ جو کہ میرے اور فلسطینیوں کے لیے اہم ہے میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں موجود ہمارے بھائی اپنے تعلقات کے ذریعے جو کہ تقریباً تمام مسلمان کے ساتھ ہیں کو استعمال کر کے تمام اسلامی ممالک اور مسلمان عوام کو اس جانب راغب کریں گے کہ وہ آگے بڑھ کر الا قصیٰ اور فلسطین کی حفاظت کریں ۔ یہ تین نکات اس وقت انتہائی اہم ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم دنیا تک یہ پیغام پہچانے میں کامیاب ہوسکے کہ فلسطینیوں کے خلاف جنگ کا مطلب دنیا کے ڈیرھ ارب مسلمانوں سے جنگ ہے تویہ تمام موجودہ صورتحال یکسر ہوجائے گی یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہوگی لیکن اگر ہم دنیا تک یہ پیغام پہچانے میں ناکام رہے لہٰذااپنے ے اتحاد کے ذریعے اسرائیل پر واضح کر دیں کہ انکی جنگ بے معنیٰ ہے وہ یہ جنگ کبھی نہں جیت سکتے اور مسلمان اور فلسطینی ہی آخر کار اس جنگ میں سرخرو اور فاتح ہونگے انشااللہ، آخر میں میرے بھائیوں میں آپ کا شکریہ ادا کراتا ہوں میں فاو،نڈیشن کا تمام سیاسی شخصیات کا تمام مسلمانوں کا شکر گزار ہوں جو کہ فلسطینی کاز کے لیے کام کر رہے ہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں اور یہ میرا ایمان ہے کہ اگر آپ فلسطین کا دفاع کریں گے تو یہ در اصل پاکستان کا دفاع ہوگا کیونکہ ا سرائیل یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس وقت تک فلسطین پر اپنا مکمل تسلط قائم نہیں کرسکتا جب تک اسلامی دنیا کو مکمل طور سے تباہ نہ کر دے خصوصا ًپاکستان کو کیونکہ اسرائیل پاکستان کو اہم اسلامی مملکت سمجھتا ہے ایک ایٹمی طاقت جو کہ فلسطینیوںکہ لیے انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتی ہے لہٰذا دفاع فلسطین کا مطلب دفاع پاکستان ہے میں آپکی کانفرنس اور کاوشوں کی کامیابی کے لیے پُر امید ہوں۔ انشااللہ۔ والسلام علیکم اُسامہ ھمدان مرکزی رہنما حماس