نابلس (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی اتھارٹی نے حال ہی میں ایک نیا قانون منظور کیا جسے ’’سیفٹی ایکٹ ‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ نام نہاد قانون فلسطینی عوام کی گردوں پر ایک نئی تلوار رکھنے کے مترادف ہے۔ اگرچہ فلسطینی اتھارٹی نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ فی الحال ’’سیفٹی ایکٹ ‘‘ قانون نافذ نہیں کیا گیا مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے غیر اعلانیہ طور پر اس قانون پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ غرب اردن کی جامعات کے سیکڑوں فضلاء اور نوجوان محققین کو باعزت روزگار سے محروم کر دیا گیا ہے اور بہت سے نوجوانوں کو بیرون ملک کام کاج کی تلاش پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
فلسطین کے غرب اردن کے علاقوں میں حالیہ ایام میں فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت سیکیورٹی اداروں کی جانب سے سیفٹی ایکٹ کے انداز میں کارروائیاں دیکھی گئیں۔ شہریوں سے ان کے کرداراور ان کی ملازمت کے بارے میں ایسے ایسے سوالات پوچھے جا رہے ہیں جن کا عام زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
ایک باخبر ذریعے کا کہنا ہے کہ غرب اردن میں جب کسی پرائیویٹ ادارے کی طرف سے ملازمت کا اشتہار دیا جاتا ہے تو فلسطینی انٹیلی جنس ادارے کے اہلکار اس پر تقرری سے قبل امیدواروں کے کوائف جمع کرنے پہنچ جاتے ہیں۔
سفیٹی سفارشات
غرب اردن میں ایک مقامی شہری صہیب ثابت نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس کا تعلق غرب اردن کے شمالی شہر نابلس کے بیت دجن قصبے سے ہے۔ حال ہی میں ایک اسکول میں فزکس کے لیے مدرس کی ملازمت کا اشتہار جاری کیا گیا۔ اس نے فزکس کے مضمون میں ایم ایسی سی کر رکھی ہے۔اس کے علاوہ اس نے مقابلے کا امتحان بھی اعلیٰ نمبروں کے ساتھ پاس کیا ہے۔ میں نے اس ملازمت کے لیے درخواست دی تو میری درخواست مسترد کر دی گئی۔ میں نے درخواست مسترد کرنے کی وجہ معلوم کی تو بتایا کہ آپ کو سیکیورٹی اداروں کی طرف سے کلیئرنس نہیں دی گئی ہے۔
صہیب کے بھائی نے بتایا کہ اس کا بھائی گرفتاری سے قبل القدس کے قریب ایک اسکول میں مدرس تھا۔ پرائیویٹ ہونے کے باوجود یہ اسکول فلسطینی سیکیورٹی اداروں کی نگرانی میں رہتا ہے اور عباس ملیشیا کے اہلکار اسکول کی انتظامیہ اور اس کے اسٹاف کے بارے میں جاسوسی کرتے رہتے ہیں۔
ایک مقامی صحافی سامر خویرہ نے بتایا کہ اس نے 20 مقامات پر ملازمت کے لیے درخواست دی مگر ہر جگہ سے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہےاس کے کاغذات کو سیکیورٹی اداروں کی طرف سے منظوری حاصل نہیں ہوسکی، جس کے بعد وہ بیرون ملک کام کی تلاش پر مجبور ہوا۔
ادھر نابلس کے قصبے عورتا کے ایک نوجوان نے وزارت اوقاف میں ایک خالی پوسٹ کے لیے درخواست دی۔ یہ پوسٹ مسجد کے پیش امام کی تھی اور وہ اس کے لیے مکمل طور پر کوالیفائی کرتا تھا مگر فلسطینی سیکیورٹی اداروں کی مداخلت کی وجہ سے وہ اس ملازمت سے محروم رہا۔
جبری ھجرت
مقامی فلسطینی رہنما حسام خضر نے ایک بیان میں کہا کہ غرب اردن میں فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے شہریوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس سے دیکھ کر پرانے اور غیرمہذب دور کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غرب اردن کے نوجوانوں کو ملازمتوں سے مسلسل محروم رکھنا اور کڑی پابندیاں لگانا انہیں زبردستی ھجرت پر مجبور کرنے کے مترادف ہے۔ کسی سول اسٹیٹ میں ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
فلسطین میں سٹیزن رائٹس گروپ کے مطابق انہیں ملنے والی شکایات میں سب سے زیادہ ملازمت سے محروم رکھنے کی شکایات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غرب اردن میں 1998ء میں منظور ہونے والے سول سروس کوڈ پرعمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے۔