رام اللہ (روز نامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) فلسطینی اتھارٹی مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں پر کئی طرح کی انتقامی اور ظالمانی پالیسیاں مسلط کیے ہوئے ہے۔ فلسطینیوں کو بغیر کسی جرم کے محض سیاسی بنیادوں پر حراست میں لینا روز کا معمول بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غرب اردن کے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے نکال کر ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کیے جا رہے ہیں۔ بغیر کسی وجہ کے ملازمین کی تنخواہوں کی کٹوتی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شہداء کے بچوں کو دیے جانے والے وظائف روکے جا رہے ہیں اور اسیران کے اہل خانہ کی امدادی رقم بند کی جا رہی ہے۔
سابق اسیر عزام ابو العدس کو حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ایک نوٹس موصول ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ ماہ سے ان کے وظیفے میں کمی کی جا رہی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی شہری کی کفالت میں کمی کی گئی ہے۔ فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ رام اللہ اتھارٹی شہریوں کو دشمن کے انداز میں ڈیل کرتی ہے۔ آئے روز فلسطینی اتھارٹی ایسے نئے قوانین وضع کرتی ہے جن کی مدد سے فلسطینی شہریوں کے حقوق غصب کئے جا رہے ہیں۔
چند روز قبل فلسطینی اتھارٹی کے شمای شہر نابلس میں انٹیلی جنس ادارے کے اہلکاروںنے سابق اسیر ابو العدس کو حراستی مرکز میں طلب کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی ابو العدس کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں اور نہ ہی ان کے خلاف فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت ملیشیا کی طرف سے کوئی کیس بنایا گیا ہے۔
ابو العدس کے واقعے سے چند روز پیشتر جنین شہر کے عرابہ قصبے کے "عرسان لحلوح” نامی طالب علم کو اریحا یونیورسٹی کی استقلال یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ الزام یہ عاید کیا گیا کہ اس نے سیکیورٹی چیکنگ کی مخالفت کی ہے۔
لحلوح نے انٹرمیڈیٹ کلاس میں 98 اعشاریہ تین فی صد نمبر لے کر خود کو ایک باصلاحیت طالب علم ثابت کیا۔ اسے دراصل اس کی والدہ کی سیاسی سرگرمیوں کی سزا دی گئی۔ اس کی والدہ عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس کے علاوہ وہ غرب اردن میں اساتذہ یونین کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ گذشتہ برس جب اساتذہ نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے پر امن احتجاج شروع کیا تو فلسطینی اتھارٹی نے انتقامی کارروائی کے تحت انہیں ملازمت ہی سے نکال دیا تھا۔
امید کا فقدان
ایسے ہی دو واقعات حال ہی میں پیش آئے۔ ایک فلسطینی صحافی سامر خویرہ نے ترکی سے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں اس نے کہا کہ وہ اپنا ملک چھوڑ کر ملازمت کے لیے استنبول آیا ہے۔ اس نے کہا کہ میرے ملک میں فلسطینی اتھارٹی نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا اور ایک فلسطینی شہری ہونے کے باوجود میری کوئی عزت اور توقیر نہیں تھی۔
خویرہ کا کیس اکیلا نہیں۔ فلسطینی سرکاری ادارہ شماریات کے مطابق غرب اردن کے 24 فی صد نوجوان فلسطینی اتھارٹی کی پالیسی سے نالاں ہیں اور وہ بیرون ملک ھجرت کرنا چاہتے ہیں۔
ایک اور فلسطینی نوجوان نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ میں ریسرچ اسٹڈی سینٹر میں ملازم تھا جہاں سے مجھے اچانک نکال دیا گیا۔ اس سے قبل میں سرکاری ملازم تھا اور مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔ جب اسٹڈی سینٹر سے نکالا گیا تو ادارے کے چیئرمین نے کہا کہ انہیں بتایا گیا کہ آپ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی رکھتے ہیں اور آپ کو پہلے ایک سرکاری ادارے سے نکالا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے مندوب محمد نصار نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غرب اردن میں جہاںپہلے ہی ملازمت کے مواقع کی شدید کمی ہے، اوپر سے ظلم یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی ظالمانہ پالیسی کے تحت نوجوانوں کو ملازمت سے نکالنے کا نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی پالیسیوں کے نتیجے میں غرب اردن کے عوام بالخصوص نوجوانوں میں سخت مایوسی پائی جا رہی ہے۔