اسرائیلی جیلوں میں گذشتہ دو سال سے قید چالیس سے زائد فلسطینی مجلس قانون ساز کے اراکین میں سے نو کو رہا کردیا گیا ہے۔ رام اللہ میں مجلس قانون ساز کسے سیکرٹری محمود رمحی نے اسرائیلی جیلوں سے اراکین مجلس قانون سازکی رہائی کی تصدیق کی اور امید ظاہر کی کہ اسرائیل عقوبت خانوں میں ڈالے گئے دیگر اراکین اسمبلی کو بھی رہا کردے گا۔
رہا ہونے والوں میں خالد سلیمان، خالد یحیٰ، ابراھیم دحبور، یاسر منصور، حسن البورینی، ریاض رداد، عماد نوفل، ناصر عبدالجواد اور محمد ابو جحیشہ شامل ہیں۔
مذکورہ قیدیوں کی رہائی کے بعد بھی اسرائیلی جیلوں میں 23 اراکین مجلس قانون ساز کے اراکین پابند سلاسل ہیں۔ ان میں سے 16 کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات درج ہیں جبکہ سات کو بغیر کسی مقدمے کے حراست میں رکھا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے 2007 میں مغربی کنارے سے تعلق رکھنے والے چالیس سے زائد اراکین قانون ساز کونسل کو گرفتار کرلیا تھا۔
مجلس قانون ساز کے سیکرٹری کا کہنا تھا کہ مجلس قانون ساز کے اراکین کی گرفتاریوں کے باعث پارلیمانی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی تھیں تاہم اب امید پیدا ہوئی ہے کہ مجلس قانون ساز اپنا کام شروع کر سکے گی۔
رام اللہ میں رہائی پانے والے افراد کے استقبال کے موقع پرصحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے رمحی کا کہنا تھا کہ فلسطینی مجلس قانون ساز کے کام کو آگے بڑھانے میں قانونی سے زیادہ سیاسی مشکلات درپیش ہیں، مجلس قانون ساز کے کام میں ایک مشکل موجودہ داخلی اختلافات ہیں۔انہوں نے امید ظاہرکی یہ اختلافات جلد ختم ہو جائیں گے۔
اس دوران فلسطینی مجلس قانون ساز کے سپیکر ڈاکٹر عزیز دویک اور ڈپٹی سپیکر ڈاکٹر احمد بحر نے رہا ہونے والے اراکین کو مبارک باد دی۔ انہوں نے کہا کہ ظلم اور تاریکی کا دور ختم ہونے والا ہے اور اسرائیل کو تمام فلسطینی قیدیوں کو بالآخر رہا کرنا ہوگا۔
دوسری جانب اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے عوامی نمائند کے رام اللہ پہچنے پر شہریوں کی بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا۔ استقبالیہ تقریب میں انسانی حقوق کے نمائندوں،اراکین مجلس قانون ساز، سابق وزرا اور تحریک اسلامی کے کارکنان ، دیگر سیاسی و سماجی تنظیموں کے نمائندو اور شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
رہائی پانے والوں کو جلوس کی صورت میں ان کے آبائی شہروں میں لے جایا گیا۔ اس موقع پر جیلوں سے رہا ہونے والے اراکین مجلس قانون ساز نے فلسطینی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات پر شدید دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی الگ الگ مسجدیں بنانے کی پالیسی اسرائیل کو فائدہ پہنچا رہی ہے، ہمیں یک زبان ہو کر قومی مفادات کے لیے کام کرنا ہوگا، انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اگر قومی خدمت اور آزادی کے لیے انہیں بار بار اسرائیلی جیلوں میں جانا پڑا تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔