(فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) بچوں کے لیے سرگرم عالمی تحریک برائے دفاع اطفال فلسطین کی جانب سے جاری کردہ ایک تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی زندانوں میں قید 76 فی صد فلسطینی بچوں کو جسمانی اذیتوں کا سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق عالمی تحریک دفاع اطفال کی جانب سے یہ رپورٹ فلسطین میں’یو اسیران‘ کے موقع پر جاری کی گئی ہے جس میں بچوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے مختلف حربوں کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ اسرائیلی تفتیش کار کم عمر فلسطینی بچوں سے دوران حراست زبردستی اور تشدد کے ذریعے ان سے اقرار جرم کرایا جاتاہے۔ بعد ازاں انہیں اعترافات کو عدالتوں میں پیش کیاجاتا ہے اور عدالتیں ان کی بنیاد پر فلسطنی بچوں کو سزائیں سناتی ہیں۔ سزاؤں کے سنائے جانے کے عمل میں بھی عدالتوں کی جانب سے کسی قسم کی تحقیقات نہیں کی جاتیں، جس کے نتیجے میں اسرائیلی عدالتوں کے فیصلوں کو بھی عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جسے ’’فلسطینی بچوں سے ایسے سلوک نہیں کیاجاتا‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی تفتیشی ادارے اور فوج فلسطینی بچوں کے اعترافات کو اس لیے عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہےتاکہ ان کی بنیاد پر انہیں سزائیں سنائی جاسکیں۔
رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ 429 میں سے 144 بچوں نے بتایا کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے انہیں عبرانی زبان میں لکھی گئی دستاویزات پیش کی گئیں جن میں ان سے زبردستی دستخط کرائے گئے۔ بعد ازاں انہیں دستاویزات کو عدالتوں میں پیش کرکے بچوں کو سزائیں دلوائی گئیں۔
تشدد کے مختلف حربے
رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ 429 بچوں میں سے 324 کو جسمانی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے 75.5 فی صد بچوں کو سنہ 2012 ء اور سنہ 2015 ء کے دوران حراست میں لیا گیا اور انہیں وحشیانہ نوعیت کی سزائیں دی گئیں۔ تشدد کے مختلف حربوں میں انہیں بجلی کے جھٹکے لگانا، گالم گلوچ، بندوقوں کے بٹ مارا، نیند سے محروم رکھنا، سردیوں میں ان پر ٹھنڈا پانی ڈالنا اور دیگرحربے شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کل 429 میں سے 179 بچوں کو رات کی تاریکی میں ان کے گھروں سے سوئے ہوئے اٹھایا گیا۔ 378 بچوں کو ان کے والدین کے علم میں لائے بغیر حراست میں لیا گیا حتیٰ کہ ان کے حراستی مراکز کے بارے میں بھی والدین کو باخبر نہیں رکھا گیا۔ حراست میں لیے جانے کے بعد 84 فی صد بچوں کو صہیونی حکام کی جانب سے یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ان کے کیا حقوق ہیں۔ تشدد کے دیگر حربوں میں بچوں کو قید تنہائی میں ڈالنا، تشدد کے ذریعے ان سے اعتراف جرم کرانا اور دیگر حربے خاص طورپر شامل ہیں۔
قید تنہائی کی سزائیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی بچوں کو دوران حراست قید تنہائی کی بھی عموما سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران 66 فلسطینی بچوں کو قید تنہائی کی سزائیں سنائی گئیں۔ ان میں سے کم سے کم قید تنہائی کی سزائیں 13 ایام تک تھیں جب کہ بعض بچوں کو کئی کئی ہفتوں اور مہینوں تک قید تنہائی میں ڈالا جاتا رہا۔
ان ہی میں 17 سالہ عبدالفتاح عوری نامی فلسطینی لڑکے کو 45 دن تک قید تنہائی میں رکھا گیا۔ 90 فی صد بچوں کو قید تنہائی میں لیے جانے کی بنیادی وجہ ان سے اعتراف جرم کرانا ہوتا ہے۔
فلسطینی بچوں کے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں پرقدغنیں عاید کرنا بھی شامل ہیں۔ صہیونی حکام کی جانب سے سنہ 2012ء سے 2015ء کے دوران فلسطینی کم سن اسیران کے حقوق کے لیے کام کرنے والے 297 میں سے 235 اداروں اور قانونی ماہرین کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بچوں کے حقوق کی پامالیوں میں عدالتوں کی جانب سے کم سن اسیران کو دی جانے والی طویل ترین سزائیں بھی شامل ہیں۔ انہی میں محض سنگ باری کے الزامات میں 10 سے 20 سال قید کی سزائیں دی گئیں۔