رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی مسلط کردہ ناکہ بندی کے خلاف سرگرم کمیٹی کے کوآرڈینیٹر جنرل علاء البطہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی رفح گذرگاہ کو بند کیے 500 دنوں سے زائد وقت گذرچکا ہے۔ مصری حکومت کی جانب سے متعدد بار گذرگاہ کھولے جانے کے یقین دہانیوں اور وعدوں کے علی الرغم گذرگاہ مسلسل بند ہے۔
فلسطینی سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ غزہ کی بین الاقوامی گذرگاہ کی بندش سے تمام شعبہ ہائے زندگی براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں مگر اس پر مستزاد ظلم یہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں ایسے 4500 مریض ہیں جن کا مقامی سطح پر علاج ممکن نہیں اور ان کے پاس بیرون ملک جانے کے لیے بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔ یوں یہ ساڑھے چار ہزار فلسطینی مریض سسک سسک کر اپنی جانیں دینے پر مجبور ہیں۔
علاء البطہ نے بتایا کہ مصری حکام کی جانب سے کئی ماہ کے تعطل کے بعد بعض ہنگامی حالات میں چند روز یا چند گھنٹوں کے لیے رفح گذرگاہ کھولی جاتی ہے مگر اس دوران بھی غزہ کے عام شہریوں کو بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں دی جاتی۔ سنہ 2014 ء کے دوران صرف 31 دن رفح گذرگاہ وقفے وقفے سے کھولی گئی۔ ان میں سے 8 دن صرف باہر سے غزہ آنے والے فلسطینیوں کے لیے یک طرفہ گذرگاہ کھولی گئی تھی۔ اس کے علاوہ چار دن غزہ کے حجاج کرام کے بیرون ملک جانے کے لیے رفح گذرگاہ کھولی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ رفح گذرگاہ کے بند ہونے کے باعث غزہ کی پٹی میں خوراک کے سامان کے ساتھ ساتھ ادویات کی بھی شدید قلت پائی جار ہی ہے۔ بیرون ملک سے آنے والی امداد بھی بند ہوچکی ہے حالانکہ غزہ کی پٹی کے 80 فی صد شہری غیرملکی امداد پرانحصار کرتے ہیں۔ گذرگاہ کی بند کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں غربت اور بے روزگاری کی شرح میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے کیونکہ شہریوں کو روزگار کی سہولتیں ختم ہوچکی ہیں۔
غزہ کی پٹی میں غربت کی شرح 40 فی صد جب کہ بے روزگاری کی شرح 45 سے 60 فی صد کے درمیان ہے۔