رپورٹ کے مطابق اتوار کو رات کے پچھلے پہر نامعلوم شرپسندوں کی جانب سے ابراہیم محمد دوابشہ نامی شہری کے مکان پر پٹرول بم پھینکے گئے جس کے نتیجے میں گھر کو آگ لگ گئی۔ آگ لگنے اور دھوئیں سے دم گھٹنے کے نتیجے میں ابراہیم کی آنکھ کھلی اور اس نے دیکھا کہ ہرطرف آگ لگی ہوئی ہے۔ اس نے اپنی بیوی بچوں اور گھر کے دیگرافراد کو جگایا اور گھرمیں لگی آگ بجھانے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی انہوں نے فائر بریگیڈ کو بھی اطلاع دے دی جنہوں نے موقع پرپہنچ کر آگ پرقابو پایا مگر تب تک گھر کا بیشتر حصہ اور اس میں موجود سامان جل کرخاکستر ہوچکا تھا۔
گوکہ اس واقعے میں کسی شخص کوملوث قرار دے کرپکڑا نہیں گیا مگراس امر کا شبہ ہے کہ یہ کارروائی انہی یہودی شرپسندوں کی ہے جنہوں نے گذشتہ برس مئی میں علی سعد دوابشہ نامی ایک پورے خاندان کو گھرمیں آگ لگا کر زندہ جلا ڈالا تھا۔ زندہ جلنے والے میاں بیوی اور ایک شیرخوار جام شہادت نوش کرگئے جب کہ ایک بچہ جس کی عمر اس وقت چار سال تھی بری طرح جھلس گیا گیا۔ اس سارے واقعے کا اکلوتا عینی شاہد ابراہیم محمد دوابشہ ہے۔
ابراہیم کی اہلیہ نے بتایا کہ اس کے شوہر کو یہودی شرپسند کئی بارگھر میں زندہ جلانے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ اس لیے انہیں ڈرتھا کہ کسی بھی وقت ان کے گھر میں بھی دوابشہ خاندان جیسا واقعہ پیش آسکتا ہے۔
فلسطینی خاتون کا کہنا تھا کہ ان کے مکان کو اس لیے نذرآتش کیا گیا تاکہ ہمیں بھی زندہ جلا ڈالا جائے اور ہم یہودی شرپسندوں کی گذشتہ برس کی اس وحشیانہ کارروائی کی گواہی نہ دے سکیں۔
مقامی فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے ابراہیم محمد دوابشہ گھرمیں آگ بجھانے کی کوشش کے دوران معمولی زخمی ہوئے ہیں اور انہیں اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ جب کہ ابراہیم دوابشہ کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ اس کے شوہر آگ میں جھلسنے کے ساتھ ساتھ دھوئیں کی وجہ سے دم گھٹنے سے بھی متاثر ہوئے ہیں اور انہیں علاج کے لیے رفیدیا اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ دوما قصبہ گذشتہ برس اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ میں توجہ کا مرکز بناتھا جب یہودی شرپسندوں نے ایک فلسطینی خاندان کو گھرمیں آگ لگا کر شہید کردیا تھا۔ اس واقعے کی عالمی سطح پرمذمت کی گئی تھی اور اسرائیلی حکومت نے بھی اس واقعے میں ملوث یہودیوں کو حراست میں لے کردو کو سزائیں دی ہیں جب کہ مرکزی ملزم کا ٹرائل ابھی جاری ہے۔