بی بی سی عربی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ڈاکٹرا لزھار کا کہنا تھا کہ پوری مسلم دنیا اور عرب برادری مسئلہ فلسطین پرمتحدہ ہوسکتی ہے۔ اس لیے حماس عالم اسلام کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اپنے فروعی اختلافات کے دائرے سے فلسطینیوں کو نکالے اور ہمیں فلاں کے قریب اور فلاں سے دور کی نظر سے نہ دیکھے بلکہ صرف مسئلہ فلسطین کی نظر سے دیکھا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی برادری اور مسلم دنیا میں سے جو بھی حماس کو فلسطین کی ایک ذمہ دار تحریک کے طورپر قبول کرے تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے اور جو اس کے باوجود ہمیں قبول نہیں کرے گا ہم اس سے بھی کوئی شکوہ نہیں کریں گے۔ ہماری صہیونی دشمن کے سوا کسی سے لڑائی نہیں ہے۔
ڈاکٹر الزھار نے کہا کہ حماس دشمن سے بے سود مذاکرات کے کھیل تماشے کا حصہ نہیں بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ مذاکراتی ڈرامے صرف مغرب کے مفاد میں ہیں۔ اس وقت عرب دنیا میں مغرب ہی کی سازشوں کی نذر ہے۔ عراق اور شام کو دیکھیں۔ ان دو بڑے ملکوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا گیا۔ ہمارے ارد گرد یہی کچھ ہو رہا ہے۔
حماس رہنما کا کہنا تھا کہ حماس عالم اسلام کو صرف امت واحدہ کے طورپر دیکھتی ہے۔ عالم اسلام کو بھی اپنے فروعی اختلافات، نسلی، لسانی، علاقائی اور دیگر تمام طبقاتی نظاموں سے ماورا ہو کر اپنی صفوں کو مضبوط کرنا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حماس نے آج تک فلسطین سے باہر کسی دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ایک گولی بھی نہیں خریدی۔ ہم صرف اپنے دفاع کے لیے فلسطین کے اندر جدو جہد کررہے ہیں۔ ہماری مزاحمت کا محور اور مرکز صرف غاصب دشمن ہے جس نے ہمارے وطن پرناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔
