رپورٹ کے مطابق ان میں سے دو مہاجرین نے بتایا کہ ان ممالک میں داخل ہوتے ہی ان کو بے دخل کردیا گیا۔ان میں اسے ایک انسانی سمگلنگ کا شکار ہوگئے جبکہ دوسرے کو دستاویزات کی عدم موجودگی کے باعث واپس اپنے ملک بھیج دیاگیا۔
آدم سنہ 2011 میں جب اسرائیل پہنچے تو ان کی عمر 18 برس تھی۔ دارفور میں نسل کشی کے واقعات کے دوران حملہ آوروں نے ان کے گھر کو جلا ڈالا تھا۔
اسرائیل آنے سے قبل انھوں نے سوڈان کے دوسرے علا قے میں قائم اقوامِ متحدہ کے ایک مہاجر کیمپ میں دن گزارے۔ کیمپ میں شدید مایوسی اور دارفور تنازع کے ختم نہ ہونے کے باعث انھوں نے مصر سے صحرا سینا اور پھر اسرائیل جانے کا فیصلہ کیا۔
لیکن اسرائیل نے چھ دہائیاں قبل اقوامِ متحدہ کے مہاجرین معاہدے پر دستخط کے بعد سے موصول ہونے والی پناہ کی درخواستوں میں سے صرف ایک فیصد کی منظوری دی ہے۔ ان ایک فیصد میں کوئی بھی سوڈانی شامل نہیں ہے۔ اسرائیل نے آدم کی درخواست بھی مسترد کر دی۔ جب اکتوبر میں وہ اسرائیل میں رہائش کے عارضی اجازت نامے کی تجدید کے لیے پہنچے تو ان کو اسرائیل کے نیگیو صحرا کے ایک دور افتادہ حراستی مرکز ہولوٹ پہنچا دیا گیا۔
اسرائیلی حکومت ہولوٹ کو ایک ’ کھلے قیام کا مرکز‘ کہتی ہے اور وہاں سے ملک کی جیل سروس چلاتی ہے جہاں کے قوانین بہت سخت ہیں۔ ان قوانین میں رات کا کرفیو بھی شامل ہے جس کی خلاف ورزی کی صورت میں آپ جیل بھی جا سکتے ہیں۔
یہ ایک بالکل ہی الگ تھلگ علاقہ ہے جہاں کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے اور وہاں سے جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
میں نے آدم اور ان کے دوستوں سے ہولوٹ کے مرکزی دروازے کے باہر بات کی جہاں وہ اپنے دن کا زیادہ تر حصہ تاش اور سنوکر کھیلنے اور عارضی ریستورانوں میں پکانے اور کھانے میں گزارتے ہیں۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ باری باری قریبی علاقے بیر شیوا میں ایک گھنٹے کی بس کا سفر طے کر کے غذائی اشیا لے کر آتے ہیں۔ ہولوٹ میں ملنے والا کھانا ناکافی ہوتا ہے جس میں گوشت اور پروٹین کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔
ان کے دوستوں میں زیادہ تر کی عمریں 20 سے 30 سال کے درمیان تھیں۔ ان میں سے کئی اپنے ملک میں استاد، سماجی کارکن اور طالب علم رہ چکے تھے۔
آدم نے بتایا ‘’ہم اپنی جوانی یہاں ضائع کر رہے ہیں۔ ہولوٹ میں رہنے کا مطلب ہے کہ آپ کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ یہاں بہت سے لوگ ان حالات کی وجہ سے دیوانے ہوگئے ہیں۔‘
میں نے جب سے ہولوٹ کا دورہ کیا ہے زیادہ تر عارضی ریستوران اور کھیلنے کی جگہوں کو سرکار کے حکم پر مسمار کر دیا گیا ہے۔
آدم کو ہولوٹ میں ایک سال قیام کرنا ہوگا، جس کے بعد ان کو ان اختیارات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ان تین اختیارات میں سے ایک تو یہ ہے کہ وہ واپس سوڈان چلے جائیں، اسرائیل میں ہی رہیں لیکن ہمیشہ قید میں اور یا پھر کسی تیسرے ملک چلے جائیں۔
اسرائیلی حکومت نے اپنے غیر مطلوبہ مہاجرین کو بھیجنے کے لیے دو افریقی ممالک سے معاہدہ کیا ہوا ہے۔
اسرائیل ’رضاکارانہ طور پر تیسرے ممالک‘ جانے والے مہاجرین سے وعدہ کرتا ہے کہ وہاں پہنچتے ہی انھیں وہ دستاویز فراہم کر دی جائیں گی جس سے انھیں وہاں رہنے کا قانونی حق حاصل ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ تل ابیب ایئرپورٹ سے روانگی کے وقت ان کو 3,500 ڈالر بھی دیے جاتے ہیں۔
اسرائیل نے ان دو نوں افریقی ممالک کا نام بتانے سے انکار کیا لیکن رپورٹر کو مہاجرین سے معلوم ہوا کہ انھیں روانڈا اور یوگنڈا بھیجا جا رہا ہے۔
ان میں سے ایک ایریٹیریا سے تعلق رکھنے والے تصفے ہیں جومارچ سنہ 2015 میں اسرائیل سے روانڈا پہنچے تھے۔
انھوں نے مجھے بتایا کہ اسرائیل نے ان سے روانڈا میں قانونی حیثیت، رہائش اور ملازمت دلوانے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ انسانی سمگلنگ کا نشانہ بن گئے۔
انھوں نے بتایا کہ اسرائیل میں جاری کیے جانے والے ان کے سفری اجازت نامے اور ویزے کی دستاویزات کو کیگالی ایئر پورٹ پر پہنچتے ہی ضبط کر لیا گیا۔
اور پھر دیگر نو ایریٹیریائیوں کے ساتھ انھیں ایک ’مہمان خانے‘ میں لے جایا گیا جہاں سے کسی کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ بغیر کاغذات کے باہر نکلنا بہت خطرناک ہوگا اور پھر دو دن بعد ہم سے کہا گیا کہ اب جانے کا وقت آ گیا ہے۔
ایک آدمی، جس نے اپنا تعارف جان کے نام سے کروایا، ہم سے کہا ’آپ یوگنڈا جا رہے ہیں لیکن جانے سے پہلے آپ کو 150 ڈالر ادا کرنے ہوں گےاور پھر سرحد سے کمپالا تک اپ کو دوبارہ کچھ رقم ادا کرنا ہوگی۔‘
پھر ہمیں ایک منی بس میں ٹھونس دیا گیا اور چھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم یوگنڈا کی سرحد پر پہنچے جہاں ہمیں بس سے اترنے کو کہا گیا۔
تصفے نے کہا ’سرحد عبور کرتے وقت ہی مجھے احساس ہوگیا تھا کہ ہمیں اسمگل کیا جا رہا ہے۔ ہم خاموشی کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ ہمیں ایک ملک سے دوسرے ملک اسمگل کیا جاتا رہا۔‘
’جان‘ کے وعدے کے مطابق انھیں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا پہنچنے پر مذید 150 ڈالر ادا کرنے پڑے۔
تصفے نے بتایا ’ایک غیر قانونی مہاجرین کے طور پر کمپالا میں داخل ہونے کے جرم میں انھیں وہاں پہنچتے ہی گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا پھر پولیس نے آدھی رقم اپنی جیبوں میں ڈالنے کے بعد انھیں رہا کر دیا۔‘
اور پھر جو کچھ تصفے کے پاس بچا تھا وہ ان کی ضمانت پر خرچ ہوگیا۔ ان کو پانچ دن بعد عدالت میں پیش ہونا تھا۔ انھیں پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا کہ ان کو ممکنہ طور پر دوبارہ جابر اور آمر ریاست ایریٹیریا واپس بھیجا جاسکتاہے جہاں سے وہ بھاگ کر آئے تھے۔ تصفے عدالت میں پیش ہونے کے بجائے ایک اور اسمگلر کو رقم دے کر کینیا پہنچ گئے جہاں انھوں نے پناہ کے لیے درخواست دے دی۔
روانڈا نے اس بات کی کبھی تصدیق نہیں کی کہ وہ اسرائیل کے ’غیر مطلوبہ مہاجرین‘ کو پناہ دیتا ہے جبکہ یوگنڈا کی حکومت ایسے کسی بھی معاہدے کی موجودگی سے صاف انکار کرتی ہے۔
یوگنڈا کے حکام نے بتایا کہ وہ اس بات کی تفتیش کر رہے ہیں کہ اسرائیل سے بھیجے جانے والے مہاجرین کس طرح ان کے ملک میں داخل ہو رہے ہیں؟
دارفور سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ ’تیسرے ملک میں پناہ‘ کی پالیسی سے قبل ہی سنہ 2014 میں سات دیگر ساتھیوں کے ہمراہ یوگنڈا پہنچ گئے تھے۔
انھوں نے بتایا ’مجھ سے جن چیزوں کا وعدہ کیا گیا تھا ان میں سے مجھے کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ مجھے کسی قسم کی کوئی دستاویزات، پاسپورٹ یا مدد فراہم نہیں کی گئی۔ اسرائیل لوگوں کو اپنے یہاں بلاتا ہے اور ان کو کچرے کی طرح پھینک دیتا ہے۔‘
اسرائیل کے امیگریشن حکام نے اکتوبر میں کہا تھا کہ 3,000 پناہ گزین اسرائیل سے کسی تیسرے ملک جا چکے ہیں لیکن رپورٹر نے معلوم کیا کہ روانڈا جانے والے صرف سات اور یوگنڈا جانے والے صرف آٹھ مہاجرین کا اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین میں اندراج ہے۔ روانڈا جانے والے مہاجرین کا تعلق ایریٹیریا جبکہ یوگنڈا جانے والے زیادہ تر مہاجرین کا تعلق سوڈان سے تھا۔
دریں اثنا 4,500 کے قریب ایریٹیرین اور سوڈانی اسرائیل میں ہی موجود ہیں۔ حکومت ان کو ملک بدر نہیں کر سکتی کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اقوامِ متحدہ کے مہاجرین معاہدے کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوگی جس پر اس نے سنہ 1954 میں دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت اگر کوئی شخص ظلم و ستم اور خوف سے پناہ حاصل کرنے کے لیے اپنا ملک چھوڑ دیتا ہے تو اسے بغیر تصدیق کے اس کے ملک واپس نہں بھیجا جاسکتا۔
لیکن جب اسرائیل ان کو مہاجرین کے طور پر تسلیم کرتا ہے تو پھر ان کو پناہ کیوں نہیں دیتا؟
اسرائیل کے دفترِ خارجہ کے ترجمان ایمانوئل ناشون کا کہنا ہے کہ مہاجرین یہودی ریاست کی سلامتی اور شناخت کی لیے خطرہ ہیں۔
’ہم یہاں ایک مشکل اور پیچیدہ صورت حال میں رہ رہے ہیں اور ان حالات میں جب آپ کا واسطہ ان مہاجرین سے پڑتا ہے جو اس ملک کی دولت اور خوشحالی کی وجہ سے یہاں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بھی اسرائیل میں اپنی شناخت قائم رکھنا مشکل نظر آتا ہے۔‘
’یہ 45,00 یا 5,000 لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے جو پہلے ہی اسرائیل میں موجود ہیں۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ افراد اپنے خاندان اور دوستوں سے بھی یہاں آنے کے لیے کہتے ہیں۔‘
اسرائیل میں سکیورٹی ہمیشہ سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔
ناشون کہتے ہیں ’مہاجرین کے لیے سرحدیں کھولنے کا مقصد ہے کہ ہم اپنی سرحدیں ان دہشت گرد تنظیموں کے لیے بھی کھول دیں جو ہمارے ملک میں آ کر دہشت گرد کاروائیاں کریں۔‘
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے وکلا اسرائیل کی عدالت اعظمیٰ میں تیسرے ملک میں پناہ کی پالیسی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی اقوامِ متحدہ کے مہاجرین کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔
ایک وکیل انات بین ڈور کا کہنا ہے ’مہاجرین پر گھس بیٹھیوں کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے اور ان کی پناہ کی درخواست کو ایک خاص نظام کے تحت مسترد کردیا جاتا ہے۔‘
’اور پھر ان کو رضاکارانہ طور پر وہ کچھ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جس کے بارے میں انھیں یہاں آنے سے قبل معلوم بھی نہیں تھا کیونکہ یہ ایک خفیہ معاہدہ ہے اور کوئی بھی اپنی مرضی سے اس معاہدے پر عمل نہیں کرتا بلکہ انھیں دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر انھوں نے ان تین اختیارات میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کیا تو انھیں ساری زندگی قید میں ہی رہنا پڑےگا۔‘
’اور جب وہ ان میں سے کسی ایک ملک پہنچتے ہیں تو جانچ پڑتال کے مناسب انتظام نہ ہونے کے باعث وہ وہاں قانونی حیثیت حاصل نہیں کر پاتے اور جیلوں میں چلے جاتے ہیں اور سب سے بڑھ وہ ان ممالک میں واپس بھیج دیے جاتے ہیں جہاں سے خطرے کے پیش نظر انھوں نے فرار حاصل کی تھی۔‘
اسرائیل کی انسانی حقوق کی تنظیم ہاٹ لائن فار ریفیوجیز اینڈ امیگرینٹس سے تعلق رکھنے والی سیگال روزن کا کہنا ہے کہ روانڈا اور یوگنڈا جانے والے مہاجرین کو حفاظت کی ضمانت نہ دینے کا مطلب ہے کہ ان کی زندگی کو زبردستی خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا ’ان میں سے کئی جنوبی سوڈان واپس چلے جاتے ہیں، کچھ کینیا اور ایتھوپیا چلے جاتے ہیں، جبکہ باقی لیبیا اور اٹلی کے راستے یورپ پہنج جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے ان میں سے بہت سے لوگ راستے میں ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ مہاجرین میں یہ لطیفہ مشہور ہوگیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے دیے جانے والے 3,500 ڈالر یورپ جانے کے لیے کافی ہیں تاہم اسرائیلی حکومت کا اصرار ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت کام کر رہی ہے اور مہاجرین کو انصاف پر مبنی ایک ڈیل مہیا کر رہی ہے۔
لیکن تصفے کا کہنا ہے کہ انھیں انصاف نہیں ملا۔
وہ کہتے ہیں ’اسرائیلی حکام جو وعدہ کرتے ہیں اسے پورا نہیں کرتے۔ مجھے کسی بھی قسم کا تحفظ نہیں دیا گیا۔‘
خطرہ یہ ہے کہ آدم اور ہولوٹ کے دیگر رہائیشیوں کو افریقہ پہنچنے پر ان تمام مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا۔
(بشکریہ بی بی سی)