اس فوجی عہدیدار نے بتایا : اسرائیل اگر چاہے تو داعش کے خلاف جنگ کر سکتا ہے لیکن وہ خود یہ سوال اٹھاتا ہے کہ مستقبل میں اس اقدام کا نتیجہ کیا ہو گا ؟ اس نے اسرائیل کے موقف کے بارے میں وضاحت کی کہ اس کے بعد کے خطروں کا کیا ہو گا ۔ اسی وجہ سے اسرائیل داعش کو روکنے اور مہار کرنے کی سیاست پر عمل پیرا ہے اور اندر سے اس کا داعش کے ساتھ رابطہ بھی بر قرار ہے ۔
طبیعی ہے کہ اسرائیل کے اس عہدیدار نے اندر سے ان روابط کی ماہیت کی وضاحت نہیں کی ہے اور نہیں کہا ہے : کہ یہ روابط کیسے برقرار ہوتے ہیں یا کس سطح کے ہیں ۔ اس کے لحن گفتگو سے صاف ظاہر ہے کہ اسرائیل اور داعش کے درمیان براہ راست یا بالواسطہ روابط کا کوئی چینل موجود ہے ۔
داعش ایران سے بہتر ہے !!!
اس رپورٹ کی بنیاد پر اسرائیل کے وزیر جنگ موشہ یعلون نے ایک کانفرنس میں ایک تقریر کے دوران اس سلسلے میں کھل کر بات کی تھی ۔ اس نے شام کے حالات کے اسرائیل کے لیے خطر ناک ہونے کے بارے میں بتایا : اصلی خطرہ شام کی سر زمین سے سر ابھارتا ہے یعنی ان علاقوں سے کہ جو شام کی حکومت کے کنٹرول میں ہیں ۔ اس سے بڑھ کر یعلون نے اسی تقریر میں کہا تھا کہ داعش اور ایران میں سے ایک کو انتخاب کرنا ہو تو وہ داعش کو ترجیح دے گا ۔
26 جنوری 2016 کی اسرائیل کی فوجی تحلیل میں جو کچھ آیا ہے وہ بہت دلچسپ ہے ۔ اس تحلیل میں شام میں جنگ کے حوادث کے بارے میں خبر دار کیا گیا ہے اور داعش کی شکست کے احتمال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کا مطلب ایران اور اسد کی سربراہی میں شام کی حکومت اور حزب اللہ کے اتحاد کی کامیابی ہے ۔اسرائیل کے افسروں نے کہا ہے کہ یہ نتیجہ اسرائیل کے لیے اچھا نہیں ہے اس سے لازمی ہو جاتا ہے کہ اسرائیل مداخلت کرے تا کہ امور کو اس کے مقاصد سے منصرف کرے اور نتیجے کو بدل سکے ۔
داعش کی شکست میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے !!
اس رپورٹ میں مزید آیا ہے کہ اس موقف کی بنا پر اسرائیل حزب اللہ اور ایران کے درمیان اپنے مفادات کو در پیش خطرات کی تشریح میں ترجیح دے گا کہ داعش کو تقویت پہنچائے اور داعش کو شکست نہ ہونے دے یہ بات اسرائیل کے اعلی افسروں نے کہی ہے ۔
اسرائیلی روزنامے بدیعوت آحارونوت نے اس ہفتے اسرائیل کی پریشانیوں کے سرچشمے اور اس کے محرکات کے بارے میں لکھا ہے ؛ شام میں داعش کی شکست سے حزب اللہ ،شام اور ایران پوری طاقت کے ساتھ اسرائیل کے مقابلے پر کھڑے ہوں گے ۔ اس بنا پر داعش کا شام کے میدان سے خارج ہونا تل ابیب کے لیے خطرہ شمار ہو گا ۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ یورپین یونین نے فلسطین کی سر زمین میں شہرک سازی کے سلسلے کو جاری رکھنے میں اسرائیل کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے غزہ اور مغربی کنارے میں کچھ تعمیری منصوبوں پر عمل کرنے کی بات کہی ہے ۔