رپورٹ کے مطابق تحریک انتفاضہ القدس ایک اہم تزویراتی اور فیصلہ کن فیصلہ ہے جس میں پورا فلسطین شریک ہے۔
اسماعیل ھنیہ نے ان خیالات کا اظہار غزہ کی پٹی میں منعقدہ ’’ہمارے القدس وعدے کا وقت قریب آپہنچا‘‘ کے زیر عنوان منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب میں کیا۔ سیمینار میں مقامی سیاسی اور سماجی رہنماؤں سمیت ہزاروں کی تعداد میں عام شہریوں نے بھی شرکت کی۔ عوام کے جم غفیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے عوام کی طاقت دیکھی ہے۔ یہ ہماری وہ طاقت ہےجسے دیکھ کردنیا حیران و پریشان ہے۔ ہم صرف غزہ کی پٹی کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ پورے فلسطین کو دشمن کے چنگل سے آزاد کرانے اور قبلہ اول کی آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہماری یہ جدو جہد مقاصد اور منزل کے حصول تک جاری رہے گی۔
حماس رہنما نے کہا کہ غزہ کی پٹی، بیت المقدس، غرب اردن، مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948 ء کے علاقوں میں بسنے والے فلسطینی اور بیرون ملک پناہ گزین کی حیثیت سے رہنے والے لاکھوں فلسطینیوں کا تحریک آزادی کے حوالے سے موقف ایک ہے۔ ہم سب مزاحمت اور انتفاضہ کو آزادی کے لیے طاقت ور تلوار سمجھتے ہیں۔ یہ وہ تلوار ہے جس نے غزہ کی پٹی میں صہیونی دشمن کو ناک رگڑنے پرمجبور کردیا تھا۔ مزاحمت ہی کے نتیجے میں دشمن کو غزہ کی پٹی سے بھاگنا پڑا۔آئندہ غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی صرف غزہ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایک ایک فلسطینی اس میں شامل ہوگا۔ القدس، غرب ارن اور شمالی اور جنوبی فلسطین کے شہری بھی اس جنگ میں بھرپور حصہ لیں گے۔