رپورٹ کے مطابق جمعرات کے روز پارلیمنٹ کے اجلاس میں یہودی آبادکاری کا ایک نسل پرستانہ قانون پیش کیا گیا جس پر رائے شماری کی گئی۔ رائے شماری کے دوران کنیسٹ کے 53 ارکان نے بل کی حمایت جب کہ 48 نے اس کی مخالفت کی۔ اگرچہ یہ مسودہ قانون معمولی اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا ہے تاہم یہ صہیونی پارلیمنٹ کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتاہے۔
درایں اثناء اسرائیلی پارلیمنٹ میں سنہ 1948 ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے تعلق رکھنے والے عرب اتحاد نے کنیسٹ سے منظور کردہ قانون کو مسترد کردیا ہے۔ ایک بیان میں عرب پارلیمانی اتحاد کا کہنا ہے کہ کنیسٹ سے یہودی آباد کاری کی حمایت میں منظورکردہ قانون عالمی صہیونی ایجنسی کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے ساتھ نسل پرستی کے اسرائیلی مظاہر کا حصہ ہے۔ اس قانون کے نتیجے میں فلسطینیوں کی املاک پرقبضے اور اراضی ہتھیانے کا جواز مل جائے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی صہیونی ایجنسی ایک منظم سازش اور حکمت عملی کے تحت فلسطین میں غیرقانونی یہودی آباد کاری کا عمل آگے بڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں جن لوگوں نے اس قانون کی حمایت کی ہے وہ نسل پرستی کے حامی ہونے کے ساتھ ساتھ فلسطین میں صہیونی مفادات کو مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
عرب پارلیمانی اتحاد نے فلسطین میں یہودی آباد کاری کی صہیونی کارستانیوں پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے کہ فلسطین میں غیرقانونی یہود توسیع پسندی کی روک تھام کے لیے عالمی برادری کی جانب سے موثر کوششیں نہیں کی گئی ہیں جس کے باعث فلسطینی عوام کو مشکلات جب کہ صہیونی ریاست کو کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔