اس پیغام میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس کو سن انّیس سو سڑسٹھ میں دیگر مقبوضہ علاقوں میں شامل کیا تاکہ بیت المقدس کے بیشتر علاقوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے ساتھ ساتھ ان علاقوں سے فلسطینیوں کی آبادی کم کی جاسکے۔
بان کی مون کے پیغام میں تاکید کی گئی ہے کہ اسرائیل نے بیت المقدس میں نسلی تطہیر کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور اس نے اس علاقے میں آباد فلسطینیوں کو، گھر سے بے گھر کردیا ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس بات پر ایک بار پھر تاکید کی ہے کہ اقوام متحدہ کے نقطۂ نظر سے اسرائیل کی جانب سے صیہونی بستیوں کا قیام، بالکل غلط اور بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔
صیہونی حکومت میں نسل پرستی کی بھڑکتی ہوئی آگ کو دیکھتے ہوئے اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ عالمی برادری کو اس وقت اپار تھائیڈ سے بھی کہیں بدتر حکومت کا سامنا ہے۔
صیہونی حکومت کے اقدامات پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا یہ ردّعمل، ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے خلاف اس غاصب حکومت کے دشمنانہ اقدامات اور نسل پرستانہ پالیسیاں، وسیع پہلو اختیار کر گئی ہیں اور یہ مسئلہ، پوری عالمی برادری کے لئے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔
خاص طور سے حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینیوں پر وحشیانہ جارحیت اور ان کے بہیمانہ قتل عام کی بنیاد بھی صیہونی حکومت کی یہی نسل پرستانہ پالیسی ہے۔ صیہونی حکومت کی یہ نسل پرستانہ پالیسی، اس بات کی ترجمان ہے کہ یہ غاصب حکومت، جرمنی میں نازیوں، اٹلی میں فاشسٹوں اور جنوبی افریقہ میں اپارتھائیڈ دور کی مانند، وحشیانہ جرائم نیز قوموں اور شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی، جاری رکھے ہوئے ہے اور صیہونی حکومت کا غیر انسانی سلوک، عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی سن انّیس سو پچہتّر میں صیہونی حکومت کے خلاف عالمی احتجاجات کے زیر اثر، قرارداد نمبر تینتیس اناسی منظور کرکے صیہونزم کو نسل پرستی کے مترادف قرار دیا تھا۔
اگرچہ مغربی ملکوں کے دباؤ اور امن پسندی سے متعلق صیہونی حکومت کے جھوٹے دعووں کے زیر اثر، سن انّیس سو نوّے کے عشرے کے وسط میں مذکورہ قرارداد کی منسوخی کا اعلان کیا گیا تاہم صیہونی حکومت کی کارکردگی سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس غاصب حکومت کی نسل پرستانہ پالیسیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور یہی وہ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی، جس کا اعتراف کیا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ نسل پرستی کے خلاف مہم سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی نے بھی حال ہی میں اس بات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کے بارے میں بین الاقوامی قوانین کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
اقوام متحدہ کی اس کمیٹی نے مقبوضہ فلسطین میں فلسطینیوں کی حالت زار پر خبردار کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ اسرائیل سے قانونی طور پر بازپرس کئے جانے کی ضرورت ہے۔