رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ اسرائیلی دشمن صرف طاقت اور بندوق کی زبان جانتا ہے۔ اس کے ساتھ بندوق اور پتھر کے ساتھ بات کی جائے گی۔
اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کو صرف فلسطینی عوام نہیں بلکہ پوری مسلم امہ، عرب اقوام اور عالمی برادری کی جانب سے حمایت ملنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انتفاضہ القدس کوچارمتوازی راستوں سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ فلسطینی قوم کی روح تحریک انتفاضہ کے جذبات راسخ کرنے کے ساتھ طاقت کے تمام وسائل کا استعمال، مزاحمت کا بیس کیمپ مضبوط کرنے اور انتفاضہ کو تحفظ دلانے کے لیے قومی سطح پر موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ تحریک انتفاضہ نے تحریک آزادی کی راہ میں حائل تین بڑی رکاوٹیں ہٹانے میں مدد کی ہے۔ یوں انتفاضہ اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں کامیاب رہی ہے۔ اس تحریک نے مسئلہ فلسطین کو عالمی فورمز پر اہم ترین ایشو کے طورپر لا کھڑا کیا۔ صہیونی ریاست کو قبلہ اوّل اور مقدس مقامات پردست درازی میں پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں قومی وحدت کو یقینی بنا کرانتفاضہ کو موثر بنایا جاسکتا ہے۔ فلسطین کے تمام طبقات اس تحریک کے دست و بازو بن جائیں اور قوم کے رگ و پے میں یہ تحریک سرایت کرجائے تو فلسطینی قوم کو اس کی آزادی کی منزل سے کوئی محروم نہیں کرسکتا ہے۔