رپورٹ کے مطابق خالد مشعل نے ان خیالات کا اظہار مغربی کنارے میں اسلامک بلاک کے زیراہتمام حماس کے 28 ویں یوم تاسیس کی حوالے سے منعقدہ ایک پروگرام میں ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میان کیا۔ خالد مشعل نے قومی پروگرام[آزادی فلسطین، مقدسات کے دفاع، اسیران کی رہائی اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی] کے لیے تین مختلف راستوں پر ایک ساتھ کام جاری رکھنے کی تجویزپیش کی۔ خالد مشعل کا کہنا تھا کہ قومی پروگرام کے تحفظ کے لیےپہلا کام مسلح مزاحمت کو تیز کرتے ہوئے اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ دوسرا اہم کام فلسطینیوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو ختم کرکے پوری قوم کے نمائندہ دھاروں کو ایک فورم پر متحد کرنا ہے اور تیسرا کام فلسطین کی عالمی سطح پر سیاسی اور قانونی جنگ لڑنے کے لیے مسلم امہ اور عالمی برادری کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔
خالد مشعل نے اپنے تقریر میں تحریک آزادی میں طلباء کی بے مثال قربانیوں کو شاندار خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں جب اور جہاں بھی آزادی کی تحریکیں چلیں ان میں طلباء نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ فلسطین کی تحریک آزادی میں بھی طلباء کا کردارشاندار رہا ہے۔ فلسطینی طلباء نے نا مساعد حالات میں بھی دشمن کے خلاف پوری قوت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھایا۔
انہوں نے کہا کہ قومی پروگرام کو آگے بڑھانے کے تین خطوط پر متوازی انداز میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور ہم ان تینوں راستوں میں سے کسی ایک راستے سے بھی بے پرواہ نہیں ہوسکتے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیلی قبضے کے خلاف تحریک انتفاضہ کو عوام کے ہر طبقے تک پہنچایا جائے اور مزاحمت کے تمام آپشنز کو استعمال کرتے ہوئے دشمن کے خلاف پوری قوت کے ساتھ لڑائی جاری رکھی جائے۔
خالد مشعل کا کہنا تھا کہ قومی پروگرام کو آگے بڑھانے کا دوسرا اہم راستہ قومی اتحاد ہے۔ فلسطینی قوم ان تمام رکاوٹوں کو ختم کریں جو قومی اتحاد کی راہ میں حائل ہیں۔ قومی اتحاد کے بغیربھی ہم منزل حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔
تیسرا راستہ مسئلہ فلسطین کے ساتھ پوری مسلم امہ اور عالمی برادری کو مربوط بنانے کا ہے۔ عالمی سطح پر فلسطینی قوم سیاسی، ابلاغی، سفارتی اور قانونی محاذوں پراپنا مقدمہ لڑنے کے لیے ماضی کی نسبت زیادہ سے زیادہ کوششیں کرے۔فلسطینیوں کے خلاف جنگ جرائم میں ملوث صہیونیوں کا عالمی اداروں میں گھیرا مزید تنگ کیا جائے اور بین الاقوامی برادری کے اسرائیلی مظالم کے خلاف غم وغصے کو اور بڑھا یا جائے تاکہ دشمن پر دباؤ ڈالا جاسکے۔