رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں معذوروں کے حقوق کی آواز دنیا بھرتک پہنچانے کے لیے وزارت بہبود آبادی کے زیراہتمام ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں معذور شہریوں اور ان کے اہل خانہ کی بڑی تعداد کو بھی شریک کیا گیا۔
اس موقع پر سیکرٹری وزارت بہبود آبادی یوسف ابراہیم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم لکڑ یا پتھر نہیں بلکہ انسان ہیں۔ اگر ہم جسمانی معذور ہیں تو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ انسان کی حیثیت سے ہم بنیادی انسانی حقوق کے اتنے ہی مستحق ہیں جتنے کے صحت مند اور تندرست افراد ہیں۔
ابراہیم یوسف نے معذور افراد کے اہل خانہ اور ان کی کفالت کرنے والے شہریوں کی ہمت، حوصلے اور جذبے کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ معذور اور ان کے اہل خانہ سب داد تحسین کے مستحق ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ خصوصی نگہداشت کے مستحق افراد کو معذور کہہ کر ان کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے بلکہ انہیں معذور کہنے والے خود معذور ہیں۔ انہوں نے معذور افراد سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ بھی معاشرے کے شہری ہیں اور آپ کے بھی وہی حقوق ہیں جو دوسرے افراد کے حقوق ہیں۔
فلسطینی عہدیدار نے عالمی برادری کی جانب سے فلسطینی معذوروں کو نظرانداز کرنے اور ان کے بنیادی حقوق کا استحصال کرنے میں صہیونی ریاست کی مدد کرنے کی شدید مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی معذور شہریوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔
معذرووں سے متعلق اعدادو شمار
یوسف ابراہیم نے تقریب میں غزہ کی پٹی میں موجود معذور افراد کی ایک مفصل رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں کل 38 ہزار معذور افراد موجود ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ عالمی ادارے کہاں ہیں؟ کیا انہیں ایک گنجان آباد علاقے میں رہنے والے معذور افرادکے بارے میں کوئی احساس ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ عالمی برادری معذوروں کی مدد نہیں کررہی ہے بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ عالمی امداد ناکافی ہے۔ غزہ کی پٹی کو عالمی برادری کی جانب سے معذوروں کی بہبود کے لیے ملنے والی امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے۔
فلسطینی عہدیدار نے بتایا کہ پچھلے سال غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں 1200 فلسطینی معذور ہوئے جب کہ وحشیانہ بمباری سے 11 ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے تھے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے بھی غزہ کی پٹی کے معذور افراد کے حقوق کی فراہمی میں کوتاہی اور غفلت کامظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کرانے کے لیے اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر معذور افراد کے لیے جاری کردہ 10 فی صد امداد ہی مستحقین تک پہنچ پاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی میں 38 ہزار معذوروں کامطلب ہے کہ غزہ کی کل آبادی کا 2.5 فی صد معذوروں پر مشتمل ہے۔ معذوروں میں 20 ہزار مرد اور 18 ہزار خواتین ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 27 ہزار معذور افراد 18 سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں۔ یوسف ابراہیم نے عالمی برادری، عالمی بنک اور امداد دینے والے ملکوں سے اپیل کی کہ وہ غزہ کی پٹی کے معذوروں کے لیے خصوصی امداد فراہم کریں۔