رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں فلسطینی علماء کونسل کے زیراہتمام منعقدہ ایک فورم سے خطاب کرتے ہوئے اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ اگر صہیونی ریاست کے پاس فلسطینی تحریک انتفاضہ کچلنے کے لیے متبادل آپشن موجود ہیں تو دشمن کو یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ فلسطینی قوم نے بھی ابھی تک تحریک انتفاضہ کے تمام پتے استعمال نہیں کیے ہیں۔ فلسطینیوں کےپاس بھی مزید متبادل راستے اور آپشنز موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انتفاضہ القدس نےالقدس اور وطن عزیز کی آزادی کے میدان میں کئی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ آنے والے دنوں میں فلسطینی قوم مزید اہداف بھی حاصل کرے گی۔
اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ فلسطینی تحریک انتفاضہ کے ثمرات سے قوم مستفید ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نہتے فلسطینی اسرائیلی فوج کی وحشیانہ اور منظم ریاستی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں مگر تحریک انتفاضہ میں فلسطینیوں کی قربانیوں سے قبلہ اوّل کی تقسیم کی گھناؤنی صہیونی سازشیں ناکام بنا دی گئی ہیں۔ اس کے علاہ مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی توسیع پسندی کے منہ زور طوفان کے سامنے بھی اس تحریک نے بند باندھ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم امن بقائے باہمی کے اصول پر یقین رکھتی ہے مگر غاصبوں کے لیے وطن عزیز میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ تحریک انتفاضہ نے فلسطینی قوم کو ایک قابض قوم میں مدغم کرنے کے امریکی ۔ صہیونی منصوبے کو بھی خاک میں ملا دیا ہے۔
اس کے علاوہ تحریک انتفاضہ القدس نے مسئلہ فلسطین کو علاقائی اور عالمی فورمز میں ایک بارپھر زندہ کردیا ہے۔ عالم اسلام کے علاوہ عالمی برادری میں بھی فلسطینیوں کے حقوق کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔
جان کیری کا دورہ
اسماعیل ھنیہ نے امریکی وزیرخارجہ جان کیری کے دورہ فلسطین اور اسرائیل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ جان کیری کا موجودہ دورہ فلسطین میں جاری کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کے نام پر کیا گیا مگر در پردہ اس دورے کا مقصد صہیونی ریاست کو سپورٹ کرنا تھا۔ امریکا نے ہمیشہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی منظم ریاستی دہشت گردی کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے تحریک انتفاضہ القدس کو دہشت گردی کی تحریک قرار دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ نہ صرف آسمانی مذاہب کی تعلیمات سے نابلند ہیں بلکہ عالمی قوانین سے بھی بے بہرہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جان کیری کے کہنے سے فلسطینی قوم دہشت گرد بن سکتے ہیں اور نہ تحریک انتفاضہ سے پیچھے ہٹیں گے۔ فلسطینی قوم مجاھدین اور علماء کی قوم نے جس نے ہر دور میں ظالم اور غاصب دشمن کے خلاف پوری جرات اور بہادری سے اپنی تحریک جاری رکھی ہے۔
اسماعیل ھنیہ نے مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں علماء کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ علمائے امت نے قبلہ اوّل کی آزادی اور فلسطینیوں کے دیرینہ حقوق کے لیے ہمیشہ پوری جرات کے ساتھ آواز بلند کی۔ انہوں نے علماء پر زور دیا کہ وہ عالم اسلام میں فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔