رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم کلب برائے اسیران کے ڈائریکٹر امجد النجار نے بتایا کہ اکتوبر کے دوران اسرائیلی فوجیوں نے الخلیل اور دوسرے شہروں سے 230 اسکول کے طلباء کو حراست میں لیا۔ ان میں بعض کی عمریں 10 سال سے بھی کم تھیں۔ گرفتاری کے وقت بچوں کی کتابیں اور ان کے بستے بھی ان سے چھین لیے تھے۔ اب ان بچوں نے اپنی کتابیں واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
رام اللہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امجد النجار نے بتایا کہ ان کے ادارے کے ہاں دسیوں بچے اور ان کے والدین یہ شکایت لے کرپہنچے کہ گرفتاری کے وقت بچوں کی کتابیں بھی ان سے چھین لی گئی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ صہیونی فوجیوں نے گرفتاری کے وقت نہ صرف بچوں کے شناختی کارڈز، اسکول کارڈز، موبائل فون اور انہیں گھر سے ملنے والے جیپ خرچ کی رقم ان سے چھین لی بلکہ ان کی کتابیں اور بستے بھی ان سے چھین لیے گئے تھے۔
انسانی حقوق کے مندوب نے فلسطینی بچوں کی کتب اور دیگر سامان ضبط کرنے کے اسرائیلی فوج کے رحجان کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی اخلاقیات اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی کتب چھیننا انہیں تعلیم سے محروم رکھنے کی ایک منظم اور گھنائونی سازش ہے۔ صہیونی فوج نہ صرف فلسطینی بچوں کو اسکول جاتے ہوئے حراست میں لے کرکئی کئی ماہ تک جیلوں میں بند رکھتی ہے بلکہ ان کی کتب بھی چھین لی جاتی ہیں۔
خیال رہے کہ اکتوبر کے اوائل سے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اسرائیلی فوج کی غنڈہ گردی کے خلاف فلسطینی احتجاجی مظاہرے کرتے رہے ہیں۔ صہیونی فوجیوں نے مظاہرین کو کچلنے کی آڑ میں اسکولوں کے کم سن طلباء کو بھی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا۔